اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل کے پریذیڈنشل سویٹ میں رات گئے ایک محفل جاری تھی جس میں وہ شخصیات بھی شریک تھیں جنہوں نے خان کو مقدمات میں سے مکھن سے بال کی طرح، صاف باہر نکالنے کا یقین دلا رکھا تھا۔ کچھ وہ لوگ بھی موجود تھے جو حق خدمت وصول پا چکے تھے۔ دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں ایک صاحب نے بتایا کہ ہم سب اپنے موکل کو واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ آپکے خلاف جرم ثابت کرنے کیلئے وافر ثبوت موجود ہیں، دنیا کی کوئی طاقت آپکو اس مقدمے میں سزا سے نہیں بچا سکتی، جو آپکو بچا سکتے تھے آپ ان سے بگاڑ چکے ہیں، وہاں موجود سب لوگ سوچ میں ڈوب گئے۔ انہی صاحب سے دوسرا سوال کیا گیا کہ پھر آپ لوگوں کی ایک ٹہنی سے دوسری اور دوسری سے تیسری ٹہنی تک چھلانگوں کا مقصد اور فائدہ کیا ہے۔ بتایا گیا کہ ہمارے موکل نے ہماری ذمہ داری صرف یہ لگائی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرو اور بس۔
موکل کو کسی صاحبہ کرامات نے کہہ رکھا تھا کہ آسمان سے سفید پوش ایک گروہ کی صورت زمین پر اتریں گے۔ عین ممکن ہے وہ سفید لباس کی جگہ خاکی لباس میں آئیں اور آپکو پھولوں کی سیج پر بٹھا کر دور کہیں دور لے جائیں۔ وزارت عظمیٰ کا تاج آپکے سر پر ہو گا۔ بے خبر لوگ بتاتے ہیں کہ توشہ خانہ کیس کا ملزم بے فکر ہو کر گہری نیند سوتا رہا حالانکہ صورتحال اسکے برعکس تھی، اندازہ کیجئے اپنے آپ سے سوال کیجئے اور خود ہی جواب دیجئے۔ جس شخص کو نظر آ رہا ہو کہ صبح وہ سلاخوں کے پیچھے ہو گا اسکی سیاست ختم ہونے والی ہے اور اب وہ ایک چور، جھوٹے اور بددیانت شخص کے طور پر جانا جائے گا وہ پُر سکون گہری نیند سو سکتا ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ اور اسکے تمام قریبی رات بھر جاگتے اور آسمان سے زمین پر اسکے بچاؤ کے لیے آنے والوں کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے آنا تھا نہ وہ آئے، تمام پھونکیں اور دم بے دم ہو گئے۔ فیصلہ سنائے جانے سے قبل انہوں نے لاہور کے مضافات میں ایک خفیہ فارم ہاؤس میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن جنہوں نے اسے گرفتار کرنا تھا وہ زیادہ مستعد اور بہتر منصوبہ ساز تھے پس فرار کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اُسے یوں پکڑا جیسے بلی چوہے کو پکڑتی ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس فارم ہاؤس میں 48 گھنٹے روپوش رہا جائے گا اس اثنا میں لوگوں کو ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جائے گی اور ہنگامہ آرائی بڑھنے کے بعد اعلان کیا جائے گا کہ خان اپنے ہزاروں ساتھیوں کی موجودگی میں خود گرفتاری پیش کرنے کیلے آ رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شیخ رشید نے راولپنڈی میں ایک احتجاج کے دوران جیمز بانڈ سٹائل میں انٹری دی تھی۔ گرفتاری کے موقع پر کیا لباس پہنا جائے گا، عینک کونسی ہو گی، چیل اور واسکٹ کا رنگ کیا ہو گا، سب طے تھا۔ میڈیا کو عین وقت پر مطلع کیا جانا تھا، جس کے بعد راگ الاپا جاتا، جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔
دوسروں سے حساب مانگنے والا اس مقدمے میں اڑتیس پیشیوں میں سے صرف ایک پر عدالت میں حاضر ہوا، وہ بہانے بناتا رہا۔ پینتیس پنکچر کی ایک فرضی کہانی سنا کر برسوں تک قوم کو گمراہ کرنے والا اس مقدمے میں عدالت کی طرف سے پوچھے جانے والے پینتیس سوالوں کے جواب دینے سے کتراتا رہا مکر و فریب کی کہانیاں سناتا رہا۔ علاقے کے بہت بڑے ڈکیت، رسہ گیر یا قاتل نے جب عوام، نظام اور قانون کا ناک میں دم کر رکھا ہو تو پھر اُسے ذلیل کرنے کیلئے مرغی چوری کے الزام میں گرفتار کر کے سزا دی جاتی ہے۔ ایسے ملزمان کو جب انکے وکلا بتاتے ہیں کہ آپکو کوئی نہیں بچا سکتا تو وہ بچوں کی طرح رونے لگتے ہیں اور دست بستہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اس جرم کے بجائے کسی فرضی قتل میں عمر قید یا سزائے موت سنا دی جائے تاکہ وہ ذلت سے بچ سکیں اور زمانے پر ان کی دھاک بیٹھی رہے۔ تحریک انصاف کے سابق چیئرمین، سابق وزیر اعظم اور میچ فکس کرنے کے بعد صادق و امین کا جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے اپنے زعم میں عالم اسلام کے عظیم راہنما کے خلاف کرپشن کے کچھ اور مقدمات اب تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھیں گے جن میں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کا عبدالقادر ٹرسٹ کیس، فارن فنڈنگ کیس، کرونا فنڈز میں کئی ملین ڈالر کی خرد برد اور ایسے کئی کیس یکے بعد دیگرے منظر عام پر تو ہیں لیکن ان سب میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ریلیف حاصل کیا جاتا رہا۔ تو شہ خانہ کیس، کرپشن کے دیگر کیسز کی نسبت ایک چھوٹی کرپشن ہے، سعودی عربیہ سے ملنے والے بیش قیمت تخائف کروڑوں ڈالر کے ہیں لیکن دیگر کرپشن کے مقابلے میں یوں ہی سمجھئے جیسے خان کو ابھی تو صرف مرغی چوری کے مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے۔ دیگر مقدمات میں سزا کا دورانیہ چودہ سال سے زیادہ اور کروڑوں روپے جرمانہ و جائیداد ضبطی کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ کہتے ہیں وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا جو کل تک دوسروں کو رلانے کی بات کرتا تھا، آج خود رو رہا ہے تکبر اسے لے ڈوبا۔
توشہ خانہ کیس کو منظر عام پر آئے قریباً چار برس ہوتے ہیں، توشہ خانہ سے کچھ اور بھی تحائف غائب کیے گئے، کچھ تو ایسے ہیں جو وہاں جمع ہی نہیں کرائے گئے جبکہ کچھ کا اصل غائب کر کے اسکی جگہ نقل رکھوا دی گئی۔ ان میں سونے سے بنا ایک لوٹا ہے جو کرتار پور افتتاح کے موقع پر سکھ برادری نے عمران خان کو بطور تحفہ دیا، ذرائع کے مطابق سونے کا لوٹا غائب کر کے پیتل کے لوٹے پر سونے کا پانی چڑھا کر رکھ دیا گیا۔ جو تحائف ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہیں ان میں ملائیشیا سے ملنے والی ایک قیمتی گاڑی اور دوسرے ممالک سے ملنے والا ایک پستول اور ایک کلاشنکوف رائفل بھی ہے۔ یہ تحائف کہاں گئے ان کی انکوائری بھی ہونی چاہئے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.