فکرِِِِِِِِِِ حسینؓ

117

ذکرِ حسینؓ کا مدعا فکرِ حسینؓ سے تمسک اور رسائی ہے۔ دراصل ذکر کا مدعا ہی فکر ہے۔ ذکر ایک عبادت ہے، تو ایک لمحے کے غور و فکر کو ستر سال کی بے ریا عبادت سے بہتر بھی بتایا گیا ہے۔
فکرِ حسینؓ سمجھنے کے لیے جس بنیادی خاکے کی ضرورت ہے، وہ ہمیں اس معروف و مستند حدیثِ پاک سے میسر آتا ہے، جس میں سرکارِ دو عالمؐ نے فرمایا ہے: ”الحسین منی و انا من الحسین“ …… حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔ اس قولِ مبارک کا پہلا حصہ تو عام فہم ہے، کہ جگر گوشہِ بتولؓ، حسینؓ ابنِ علیؓ، جنہیں سرکارِ دو عالمؐ نے اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیا ہے، آپؐ کے نواسے ہیں، یوں نسبی اعتبار سے امام حسینؓ شفیع المذنبین، رحمت للعالمین، شافعِ اُمم، حاملِ لوئے حمد، حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث ہیں۔ اسی حدیثِ مبارکہ کے دوسرے حصے، ”میں حسینؓ سے ہوں،“ کی تفہیم تک رسائی ہی فکرِ حسینؓ تک رسائی ہے۔ یہ فرمان کہ ”حسینؓ مجھ سے ہیں“ اس امر کا اعلان ہے کہ اسلام کے فکری اثاثے کے جانشین امام حسینؓ ہیں۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ واٰلہ وسلّم انسانِ کامل ہیں۔ آپؐ ہر اعتبار اور ہر پہلو سے نہ صرف یہ کہ کامل ہیں، بلکہ اکمل ہیں۔ آپؐ اپنے ماننے والوں کو کمال عطا کرتے ہیں۔ اس کاملیت و اکملیت میں یہ امر شامل ہے کہ یہاں خیال اور وجود میں کوئی فرق نہیں، یعنی پیغام اور پیغام لانے والی شخصیت میں دوئی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ غور کرو، اعلانِ نبوّت سے پہلے چالیس برس تک سرکارِ دو عالمؐ کی زندگی عین اسلام کے مطابق تھی۔ یعنی یا تو یہ کہو کہ آپؐ کی زندگی اسلام سے قبل بھی عین اسلام تھی یا پھر یہ کہو کہ آپؐ ہی کی زندگی کو بہترین نمونہ قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام اسلام رکھ دیا۔ اس بات کی سند سیرت کی کتابوں میں اس طرح بھی ملتی ہے کہ جب اصحابِ رسول نے حضرت عائشہؓ سے حضور اکرمؐ کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو آپؓ نے فرمایا: ”کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟“ مراد یہ کہ قرآن کریم میں جس اخلاقِ کریمہ کی تعلیم ہے، معلّمِ اخلاقؐ کی ذات والا صفات عین انہی قرآنی اخلاق سے متصف ہے۔ یہاں یہ نکتہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رسولِ کریمؐ کے عطا کردہ پیغامِ اسلام کو حضرت امام حسینؓ نئی زندگی عطا کریں گے۔ امام عالی مقامؓ صورت و سیرت دونوں میں رسولِ کریمؐ سے مشابہ ہیں۔ اہلِ عرفان انتہائی ادب اور قرینے سے آپؓ کو امام عالی مقامؓ کہتے ہیں۔ امامت پیغامِ نبوت کی محافظت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے کربلا میں مقامِ امامت سے بھی خلق کو روشناس کرا دیا۔
یہ عالمِ خلق خیر و شر کی دوئی سے مزین ہے۔ یہاں اشیا اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں۔ شر کی مدد سے خیر کو پہچاننے میں آسانی ہوتی ہے۔
اندھیرا روشنی کی دلیل بن جاتا ہے۔ موت زندگی کی پہچان بن جاتی ہے۔ اسی اسلوب پر فکرِ حسینؓ کو سمجھنے کے لیے فکری قویٰ کا عادلانہ استعمال کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ فکرِ یزید کے برعکس سمت کی فکر، فکرِ حسینؓ کی طرف نشاندہی کرے گی۔ یزیدی فکر کیا ہے؟ یزیدی فکر کا دوسرا نام ظلم ہے۔ ظلم کے مقابلے میں امامِ عادل، عدل کا علم لیے ہوئے، دکھائی دیں گے۔ یزیدیت ملوکیت سے عبارت ہے۔ ملوکیت کے مقابل دوسری طرف حریت نظر آتی ہے۔ ملوکیت جبر سے تشکیل پاتی ہے۔ حریت جبر سے رہائی کا پیغام لاتی ہے۔ ملوکیت ہر صورت میں اقتدار اور قوت کے حصول کا تقاضا کرتی ہے۔ حصول اقتدار کے لیے خواہ لاکھ اخلاقی اقدار بلڈوز ہو جائیں خواہ کتنے ہی دینی نصوص پامال ہو جائیں، ملوکیت کو کسی کی کچھ پروا نہیں۔ اس کے مقابل حسینیت کو ہر حال میں انسانی اقدار کی حرمت عزیز ہے۔ اقتدار کے مقابلے میں حسینی فکر اقدار کا تحفظ چاہتی ہے۔ یزیدیت مادیت ہے …… کسی مقصد کے بغیر چند روزہ زندگی عیش و عشرت کی نذر کرنے کی تدبیر ہے۔ حسینت روحانیت ہے …… ایک مقصدِ عظیم کے تحت اپنا تن من دھن قربان کرنے کا نصاب ہے۔ حسینیت بہترین جہاد کی قائل ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے: ”جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے“۔
تاریخ سے نابلد، کج فہم لوگ واقعہ کربلا کو خروج یا بغاوت کہتے ہیں۔ گھر والے مزاحمت کرتے ہوئے راہزنوں کے ہاتھوں قتل ہو جائیں تو اسے بغاوت نہیں، شہادت کہتے ہیں۔ دین کے راہزن سب سے خطرناک ہوتے ہیں۔ راہبر کے لباس میں راہزن نسلوں کو فکری طور پر بنجر کر دیتے ہیں۔ تعصب کی پہلی سزا یہ ملتی ہے کہ انسان فکری میزان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی عقل سلیم سے فرقان واپس لے لیا جاتا ہے۔ متعصب اور ژولیدہ فکر اذہان کربلا کو اقتدار کی جنگ یا سیاسی بالا دستی کی جد وجہد قرار دیتے ہیں۔ واللہ! کربلا جنگ تھی، نہ خروج۔ اگر امام عالی مقامؓ جنگ کے ارادے سے نکلتے تو اہلِ مدینہ کو ساتھ لے کر چلتے۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں کا لشکر ضرور ہمراہ ہوتا۔ اگر مسلح مزاحمت کی نیت ہوتی تو امام حسینؓ حج کی نیت کو عمرے میں تبدیل نہ کرتے، بلکہ اطرافِ عالم سے آئے ہوئے حاجیوں کو اپنے لشکر میں جمع کرتے، لیکن تاریخ نے دیکھا کہ امام عالی مقامؓ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک سارا سفر اپنے گھر کے افراد اور چند قریبی رفقا کے ہمراہ کرتے رہے۔
ابتدا میں حکومتی مرکز اور دینی مرکز و محور مسجدِ نبویؐ کا صحن تھا۔ جہاں سے جہانبانی کے احکامات سنائی دیتے، وہیں سے دین کے اوامر و نواہی کے مسائل بھی خطاب ہوتے۔ عوام الناس خلیفہ وقت سے دین اور دنیا دونوں کے اسباق لیتے۔ اوائل میں صاحبِ شمشیر صاحبِ تدبیر بھی ہوا کرتے تھے، لیکن جب مسند حکومت شام میں منتقل کر دی گئی تو دین اور دنیا میں دوری اس قدر بڑھ چکی تھی کہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ فاسق و فاجر حکمران بزورِ شمشیر دین میں تحریف کا مرتکب ہو جائے گا۔ چنانچہ دینِ محمدیؐ کو اپنے حقیقی فکری سانچے میں واپس لانے کے لیے دین کے وارث متحرک ہو گئے۔ اس لیے بیعت کے سوال پر امام عالی مقامؓ کا فرمان تھا ”مجھ ایسا، اس جیسے کی بیعت کیسے کر سکتا ہے؟“ امام عالی مقامؓ کا بیعت سے انکار دراصل دین بچانے کی حکمت تھی۔ امام حسینؓ کی یزید کے ہاتھ پر بیعت اس کی خرافات و تحریفات پر گویا ایک سند سمجھ لی جاتی۔ یوں اسلام اپنی اصل ہیئت سے اتنا دور چلا جاتا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی سعیِ پیہم اکارت ہو جاتی ہے۔ آدم تا ایں دین اسلام ہی ہے۔ امام عالی مقامؓ کی قربانی، جسے ذبحِ عظیم کہا جاتا ہے، درحقیت کُل ادیانِ عالم …… آدمؑ سے لے کر حضور اکرمؐ تک …… تمام انبیاء کی تعلیمات کو تاقیامت محفوظ کرنے کی ایک الوہی حکمت ہے۔
بزورِ شمیشر فتح، عارضی فتح ہوتی ہے۔ حق کو اخلاقی فتح درکار ہوتی ہے، کیونکہ حق ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ اخلاقی فتح، مقتول بھی حاصل کر سکتا ہے۔ کربلا میں دینِ حق کو ایسی اخلاقی فتح حاصل ہوئی جو تاقیامت باقی رہے گی۔ یزید اپنے زور و زَر سمیت زمیں بوس ہوا، امام حسینؓ کا عَلمِ حریت شرق و غرب میں لہرا رہا ہے۔
اخلاقی فتح قربانی مانگتی ہے۔ کربلا میں کائنات کے مقدس ترین نفوس نے اپنے خون کی قربانی دی۔ اس ذبحِ عظیم نے دینِ حق کی اخلاقی حجت کو قیامت تک کے لیے قائم کر دیا۔ جب تک شہود کی دنیا قائم ہے، یہ شہادت قائم رہے گی۔ جب تک اہلِ فکر و ذکر اس دنیائے ہست و بود میں سانس لیتے رہیں گے، کربلا کی معنوی پرتیں وا ہوتی رہیں گی، ذکرِ حسینؓ سے فکرِ حسینؓ کی نئی جہتیں کھلتی رہیں گی۔ علّامہ اقبالؒ پر کیا جہت کھلی کہ کہہ اٹھے:
آں امامِ عاشقاں پُورِ بتُولؓ
سَروِ آزادے زِبُستانِ رسُولؐ
اللہ اللہ بائے بِسم اللہ پِدرؓ
معنیئ ذبحِ عظیم آمد پِسرؓ
(وہ عاشقوں کے اِمامؓ، حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے فرزند اور حضور نبی کریمؐ کے باغ کے ایک سروِ آزاد ہیں۔ سبحان اللہ! کیا کہنے، باپ (حضرت علیؓ) بسم اللہ کی ”با“ ہے تو بیٹا (حسینؓ) ذبح عظیم کی شرح ہے۔)
سلام ہے کربلا والوں پر! عاشقوں کے امام عالی مقامؓ پر ہزاروں سلام! حق اور قربِ حق کی شدتِ ظہور دیکھیے کہ آسمان سوئے زمین چلا آتا ہے …… ایک عرشِ معلیٰ ہے اور ایک کربلائے معلّیٰ!!
السلام! اے گوہرِ عینِ علیؓ
دینِ پیغمبرؐ کے عنوانِ جلی
(واصفؒ)

تبصرے بند ہیں.