پیمرا یعنی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، وہ ادارہ ہے تو ملک کے ٹیلی ویژن چینلوں، ایف۔ ایم ریڈیوز اور کیبل آپریٹروں کو لائسنس دینے، ان کی نگرانی کرنے اور پیمرا قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کروانے کا ذمہ دار ہے۔ چند دن پہلے وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے پیمرا ترمیمی بل (2023) منظور کروایا ہے۔ میڈیا اور صحافتی حلقوں میں اس بل پر بحث ہو رہی ہے۔ اب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہو گا۔ اسمبلی سے منظوری کے بعد اسے سینٹ میں بھیجا جائے گا۔ اگر یہ بل سینٹ سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ ایکٹ یعنی باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل کر لے گا۔ جب سے اس ترمیمی بل کی اطلاع سامنے آ ئی ہے، کچھ صحافتی حلقوں کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ زیر بحث آرہا ہے کہ آیا پیمرا کے قانون میں تجویز کردہ ترامیم پہلے سے موجود قانون کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہیں یا آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کے لئے یہ ترامیم متعارف کر وائی گئی ہیں۔ صحافت اور ابلاغیات کی ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میں نے اس معاملے پر کچھ تحقیق کی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کا ایک طویل انٹرویو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ کچھ اخباری خبریں اور تجزئیے بھی میری نگاہ سے گزرے ہیں۔
اس ترمیمی بل کے حوالے سے نہایت مثبت بات مجھے یہ لگی کہ حکومت نے قانون سازی کے عمل میں نمائندہ صحافتی تنظیموں سے مشاورت کو یقینی بنایا ہے۔ورنہ اکثر وبیشتر حکومتیں متعلقہ اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ مثال کے طور پر وفاقی حکومت ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے قانون میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ اس معاملے میں حکومت نے جامعات کے وائس چانسلروں یا صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشنوں کے سربراہان کی رائے لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ خوش آئند امر ہے کہ پیمرا ترمیمی بل کے مشاورتی عمل میں اسٹیک ہولڈر شامل رہے ہیں۔پیمرا قانون کے ضمن میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر تو پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن ہے۔ یہ ٹی۔وی چینلوں کے مالکان پر مشتمل تنظیم ہے۔ پی۔ بی۔ اے نے اس ترمیمی بل کا خیر مقدم کیا ہے۔پی۔بی۔اے کا یہ بیان میری نگاہ سے گزرا کہ بیشتر ترامیم اتفاق رائے سے کی گئی ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ بالکل اسی طرح کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، پاکستان یونین آف جرنلسٹس، ایسو سی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز اور کچھ دیگر اہم صحافتی تنظیموں کے سربراہا ن بھی مشاورتی کمیٹی میں شامل تھے۔اسٹیک ہولڈروں کی تجاویز کو بل کا حصہ بنایا گیا۔ بقول وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب، منظوری سے قبل ایک ایک نکتے اور کومے پر بحث ہوئی۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب دعویدار ہیں کہ اس بل کا بنیادی مقصد صحافیوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنا نا اور ذمہ دار صحافت کا فروغ ہے۔ اللہ کرئے کہ ایسا ہی ہو۔وقت گزرے گا تو اس دعوے کی تصدیق یا تردید خود بخود ہو جائے گی۔ جس طرح یہ بات سچ ہے کہ حکومتوں کو میڈیا کی آزادی اچھی نہیں لگتی، یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ میڈیا بھی خود کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے سے پہلو بچاتا ہے۔ ہم آگاہ ہیں کہ تمام تر مثبت کردار سے قطع نظر، میڈیا کا ایک قابل ذکر حلقہ صحافتی اصولوں کی پابندی نہیں کرتا۔ یہ نام نہاد صحافتی حلقہ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے، گریبان چاک کرنے، الزام تراشی اور دشنام طرازی کو صحافت کا نام دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ روائتی میڈیا پر بھی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی بھرمار ہے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پیمرا اپنی استعداد کار کے مطابق چینلوں کی گرفت کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ناکافی ہے۔ جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی روک تھام کے حوالے سے اس ترمیمی بل میں ایک اہم ترمیم شامل ہے۔ نئے قانون میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے فرق کو واضح کر دیا گیا ہے۔ کوئی صحافی یا ادارہ شعوری طور پر جھوٹی اور من گھڑت خبر چلاتاہے تو وہ ڈس انفارمیشن کہلائے گی۔ غلطی سے غلط یا حقائق سے بعید خبر مس انفارمیشن کے ذمرے میں آئے گی۔ بل میں یہ میکانزم بھی طے کر دیا گیا ہے کہ جھوٹی یا غلط خبر کی اشاعت کے بعد کس طرح صحافی یا ادارے کی نیت کا تعین کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر دیکھا جائے گا کہ جس شخص یا ادارے کے خلاف خبر چلائی گئی ہے، صحافی نے اس شخص کا مؤقف لیا ہے یا نہیں؟ اس مؤقف کو کس انداز میں پیش کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے۔ یقینا اس سے جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ترمیمی بل میں پیمرا چیئرمین کے کچھ اختیارات بارہ رکنی اتھارٹی کو تفویض کر دئیے گئے ہیں۔مثال کے طور پر پیمرا کے موجودہ قانون میں کسی پروگرام یا چینل کو بند کرنے کا اختیار چیئرمین پیمرا کے پاس تھا۔ ترمیمی بل میں یہ اختیار پیمرا اتھارٹی کو دے دیا گیا ہے۔ میڈیا کی تسلی اور تشفی کے لئے بارہ رکنی اتھارٹی میں میڈیا کے دو نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک رکن میڈیا مالکان کی نمائندگی کرئے گا جبکہ دوسرا رکن کارکن صحافیوں کا نمائندہ ہوگا۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی ملک میں میڈیا قوانین کے نفاذ اور جزا اور سزا کے تعین کے لئے میڈیا کو نمائندگی دی گئی ہو۔ اس کے باوجود یہ ایک مثبت ترمیم ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس ترمیمی بل کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس میں میڈیا ورکروں کی تنخواہو ں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے حوالے سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ تجویز ہوا ہے کہ صحافتی ادارے کارکنوں کو دو ماہ کے اندر اندر تنخواہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں کرتا تو ملازم یا میڈیا ورکر کونسل آف کمپلینٹ میں شکایت لے کر جا سکتا ہے۔ حکومت نے ادارے کو ملنے والے سرکاری اشتہارات کو صحافیوں اور میڈیا ورکروں کی تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کر دیا ہے۔ 2015 میں الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنایا گیا تھا۔ عرفان صدیقی صاحب کی سربراہی میں قائم حکومتی کمیٹی نے پی۔بی۔اے کے سامنے یہ نکتہ رکھا تھا کہ سرکاری اشتہارات کو کارکنوں کی تنخواہوں سے مشروط کر دیا جائے۔ لیکن اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ موجودہ وزارت اطلاعات کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ وہ اس نکتے کو قانون کا حصہ بنا نے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹی۔وی چینلوں میں کام کرنے والے صحافی اور دیگر کارکنان کو تنخواہوں کی ادائیگی کا معاملہ نہایت سنجیدہ ہے۔ کئی کئی مہینو ں کی تاخیر کے بعد کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ کچھ ایسے صحافتی ادارے بھی ہیں جو کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات تو دھڑلے سے لیتے ہیں، لیکن جب کارکنان تنخواہوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ میں کچھ برس پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹ کی رکن رہی ہوں۔ اکثر میڈیا ورکر کونسل میں اپنی تنخواہوں کی شکایت لے کر آیا کرتے تھے۔ لیکن کونسل کے پاس اس حوالے سے کوئی اختیار نہیں تھا۔ ترمیمی بل کی منظوری سے یہ اختیار کونسل کومل جائے گا۔ یہ میڈیا کارکنان کے لئے بہت اچھی خبر ہے۔
یقینا اس ترمیمی بل میں مزید بہتری کی گنجائش ہو گی۔ ترامیم کا مقصد قانون میں بہتری لانا ہی ہوتا ہے۔ اس قانون کی منظوری اور اطلاق سے اگر صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور جھوٹی خبروں کی ترسیل میں کمی واقع ہو تی ہے تو یقین جانئے یہ اس قانون کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.