عمران خان اور تحریک انصاف سے بے وفائی کا ارتکاب کر کے پارٹی چھوڑنے والے رہنماؤں کا اتنا قصور نہیں جتنا کہ خود عمران خان کا ہے۔ عمران خان پچیس سال سے سیاست کر رہے ہیں لیکن مثال آج بھی کرکٹ کی دیتے ہیں۔ سیاست کا تعلق انسانی معاشرت کے ساتھ تب سے ہے جب سے انسانوں نے قبیلوں کی شکل میں رہنا شروع کیا اور سرداری نظام وجود میں آیا۔ کرکٹ آج کا کھیل ہے۔ کیا فلسفہئ کرکٹ سے ملکی امور اور سیاست کے بارے رہنمائی لی جا سکتی ہے؟ کیا کرکٹ کو طرز حیات قرار دیا جا سکتا ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا کپتان جسے کھیل سمجھتا رہا اور کھیل کے اصولوں سے چلانے کی کوشش کرتا رہا وہ ملک تھا کھیل کا میدان نہیں تھا۔ آخر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان بطور کپتان اچھی ٹیم سلیکٹ کرنے میں ناکام رہا۔ جتنے لوگ پاکستان کے لیے شروع دن سے عمران خان سے آ ملے تھے جب عمران خان اقتدار میں آیا تو ان میں سے اکثریت کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور جو اقتدار کے مزے لُوٹنے کے لیے آئے تھے وہ حکومت اور پارٹی دونوں جگہ آگے پاتے گئے۔ فیصل جاوید ایک اچھے انسان ہونگے لیکن سیاسی طور پر ان کے اندر قابلیت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عمران نے جب فیصل جاوید کو سینیٹر بنایا تو مجھے لگا کہ عین ممکن ہے ڈی جے بٹ کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا جائے کیونکہ کپتان سے کچھ بھی بعید نہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ابھی تحریک انصاف
پنگھوڑے میں تھی اور لوگ اس میں شامل ہونے سے گریزاں تھے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز عمران خان سمیت اس کے عہدیداران کو پروگرامز میں بلانے سے بھی گریز کرتے تھے تو ایک معصوم، شریف النفس، خوبصورت اور انتہائی شائستہ نوجوان در در بھٹکتا پھرتا تھا۔ اس کے اندر تحریک انصاف کا بول بالا کرنے کا ایسا جذبہ تھا جو اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ اسے اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کے سوا کوئی ہوش نہیں تھا۔ روٹی رزق کی پروا نہ فیملی کی۔ وہ کہتا تھا کہ ان شاء اللہ تحریک انصاف ایک دن ملک میں تبدیلی لائے گی اور ہم ایک نئے، خوشحال پاکستان میں سانس لیں گے۔ وہ کہتا تھا ہم اپنی فوج کو ایک عظیم فوج میں بدل کر وطن کو مستحکم اور عوام کو انصاف دلا کر نئے پاکستان کے عدل کے نظام کو ساری دنیا کے لیے مثال بنائیں گے۔ میں جس بھی ریڈیو اور ٹی وی پر گیا عمر سرفراز چیمہ میرے مستقل اور مسلسل مہمانوں میں شامل ہوتا تھا۔ وہ سچا تھا اور مخلص تھا اس لیے مجھے پیارا لگتا تھا۔ پھر تحریک انصاف نے ترقی کرنا شروع کی اور مخلص کارکنوں کی جگہ زیادہ سے زیادہ چندہ اکٹھا کرنے والوں اور زیادہ سے زیادہ خوشامد کرنے والوں نے لینا شروع کر دی۔ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو عمر سرفراز چیمہ جیسے لوگ کہیں دور پھینک دیے گئے۔ متعدد پرانے ورکر گھروں میں جا بیٹھے۔ ایک بنیادی کارکن جمشید امام بٹ نے روتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس پارٹی کو اپنی جوانی دی ہے لیکن آج ہمیں نہیں پوچھا جا رہا کیونکہ ہم غریب کلاس میں سے ہیں۔ ہم امریکہ سے نہیں آئے، ہمارے پاس پجیرو ہے نہ جہاز۔ لیکن عمر سرفراز چیمہ گھر بیٹھا نہ اس نے پارٹی چھوڑی۔ پھر اس کی ضرورت پڑی تو مختصر دورانیے کی گورنرشپ کا ٹاسک دے کر قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ لیکن اس مرد مجاہد نے اتنے مشکل حالات میں پارٹی کا ایک ثابت قدم گورنر بن کے دکھایا۔ اب بھی جب پارٹی پر مشکل وقت آیا ہے تو جیل کی تمام تر صعوبتیں برداشت کر کے پہاڑ حوصلے کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ عمران خان کے فصلی بٹیرے اڑ کر کسی اور سرسبز شاخ پر جا بیٹھے ہیں۔ پچھلے دنوں جب اسے پا بہ زنجیر عدالت میں لایا گیا تو ویڈیو میں دیکھا کہ اس سے چلنا مشکل ہو رہا ہے اور وہ بڑی مشکل سے خود کو خود ہی سہارا دے کر چل رہا ہے۔ دل خون کے آنسو رو دیا۔ سنا ہے وہ بے ہوش ہو کے گرا بھی۔ اس کا قصور یہ ہے کہ وہ محب وطن آدمی ہے اور حکومت ہر اس محب وطن کو نشانہ بنا رہی ہے جو بزدل اور ضمیر فروش نہیں۔ چودہ کی چودہ پارٹیوں میں جتنے لوگ بیٹھے ہیں یا شامل ہوئے ہیں عوام انہیں بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے غیر عوامی لوگ کراچی کے حالیہ میئر الیکشن جیسا مقابلہ کر کے اقتدار میں آ بھی جائیں لیکن یہ کبھی عوام کے اندر نہیں جا سکیں گے۔ چلے بھی گئے تو عزت نہیں پائیں گے۔ پاکستانیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر عمر چیمہ تک تمام محب وطن پاکستانیوں کے لیے ہر رات خوف کی رات اور ہر دن اذیت کا دن ہے۔ لیکن یہ وطن کی محبت بھی عجیب جادو ہے۔ ہمیشہ سر چڑھ کے بولتا ہے اور کبھی کمزور نہیں پڑتا۔
تم شوق سے رات کی بات کرو
ہم خون سے دیے جلائیں گے
عمر چیمہ تری وفا کو سلام ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.