مہنگائی کے لیے متعلقہ اداروں کا نا گزیر کردار

87

جس طرح ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اس نے خدمات کے شعبے میں ملازمت کرنے والوں کو معاشی طورپر بری طرح متاثر کیا ہے۔ 1996ء میں جب ایک امریکی ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں 34 روپے کا تھا تو خدمات کے شعبے میں ایک نئے گریجویٹ کی تنخواہ 12 ہزار روپے تھی۔ آج 2023 ء میں ایک نئے گریجویٹ کی تنخواہ تقریباً 50,000 ہے جب کہ ڈالر کی قدر285 ر وپے سے زائد ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نئے گریجویٹ کی تنخواہ 350 ڈالر سے کم ہو کر 175 ڈ الر ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ”صنعت بڑھتی ہوئی لاگت کو صارفین تک پہنچانے کے ساتھ، خدمات کے شعبے کے مقابلے میں شرح مبادلہ کے اتار چڑھاؤ سے زیادہ محفوظ ہے“۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صنعتی مصنوعات کو صارفین تک پہنچانے کے لیے ڈسٹری بیوٹر اور ریٹیل نیٹ ورک کو اختیا ر کیا جاتا ہے، جو بادیئ النظر میں خدمات کے شعبے میں شمار کیا جاتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ یہ عرض کرتا چلوں کہ جس طرح ڈالر کی قدر نے پیٹرول، بجلی کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء کو متاثر کیا ہے، اس کے سبب ڈسٹری بیوٹر اور ریٹیلرز کے اخراجات کی شرح میں تقریباً 40 فیصد اضافہ واقع ہوا ہے۔ جیسا کہ ماہرین نے بتایا کہ صنعت کار تو لاگت میں اضافے کو صارفین تک منتقل کر دیتا ہے، مگر ڈیلروں اور ریٹیلرز کا کمیشن وہ پُرانا چلا آرہا ہے۔اس کا حل تاجروں نے یہ نکالا کہ مال کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا، تاکہ پرانے نرخوں پر خریدا مال نئے اور مہنگے نرخوں پر آئے دن کی بڑھتی قیمتوں سے نفع کے نقصان کو پورا کیا جا سکے، اور اس کا خمیازہ عوام بھگتیں۔
کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی وجہ ڈالر کی اونچی اُڑان ہے، کہ لگژری اشیاء کے علاوہ انتہائی بنیادی ضرورت کی بھی اہم اشیاء مثلاً پیٹرول، ادویات اور دالوں کی درآمدات سے درآمدی بل بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹر حضرات کی ایک بڑی تعداد انڈرانوائسنگ کرنے کے لیے بھی مقامی مارکیٹ سے ڈالر خرید کر اپنے کاروباری
”ہنر“ کا مظاہرہ کر کے مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کا سبب بنتی ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کا مقابلہ کیسے کریں؟ اور اس کے اثراتِ بد سے بچنے کے لیے ماہرین ایک تجویز تو یہ دیتے ہیں کہ گھر سے کام کرنے، کار پولنگ(Car Pooling)اور گھروں میں بجلی کے آلات کا سمجھداری اور کفایت سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ایسے لوگ جو اپنی بچتیں مختلف پروجیکٹس میں لگاتے ہیں اور ڈالر اور سونے کی بڑھتی قیمتوں سے متاثر ہو کر اپنی زندگی بھر کی کمائی محفوظ پروجیکٹس اور سکیموں سے نکال کر ڈالر اور سونا خرید رہے ہیں، اُن کے لیے ماہرین کی تجویز ہے کہ اپنی بچت کو ڈالر اور سونے کی خرید نے میں نہ لگائیں کہ ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ افراطِ زر نے ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں اضافے کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ایف بی آر کے سابق چئیرمین شبر زیدی تجویز کرتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بچنے پیٹرول اور بجلی کی کھپت میں کمی کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر اس عمل کو انفرادی سطح پر کرنے کے بجائے قومی سطح پر اختیار کیا جانا چاہیے، مثلاً تجارتی مراکز کی جلد بندش وغیرہ۔ درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے شبرزیدی طویل مدتی منصوبہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک تو ایسے بڑے کاروباری گروپوں کو چاہیے کہ ایکسپورٹ میں اضافے پر توجہ دیں، اور ایسے شعبوں کو بھی تقویت دیں جن کا انحصار درآمدی خام مال پر بالکل نہ ہو یا اگر ہو بھی تو انتہائی کم، شبر زیدی کا کہنا ہے کہ یہ ہی وہ طریقہ ہے جس سے ڈالر کے اخراج کی رفتار کم ہو گی اور روپے کی گراوٹ جو عوام کی زندگیوں کو مہنگائی سے اجیرن بنا رہی ہے، کم ہو گی۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ بینکنگ اور پانی فروخت کرنے والے کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو کم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ (FDI) ہی ہے جو ہر سال اپنا منافع اور وہ بھی ڈالر کی شکل میں واپس بھیجتے ہیں۔ دیگر ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ ایف ڈی آئی ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ رہی ہے۔ ایف ڈی آئی ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ، پیکڈ فوڈ، دودھ، سافٹ ڈرنکس اور ٹوائلٹریز کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے، یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں مقامی مارکیٹ میں اپنی روپے کی آمدن کو ڈالر میں تبدیل اور قیمتی زرِ مبادلہ منافع کی شکل میں اپنے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھیجتی ہیں۔
مندرجہ بالا تمام تجاویز اپنی جگہ پر اِن تجاویز کو عملی جامہ کون پہنائے گا؟ یہ اقتدار کے بھوکے سیاستدان؟ یا پھر وہ ادارے جن کی ذمہ داری ہے مگر وہ اسے ادا کرنے سے دانستہ قاصر ہیں؟
گزشتہ دنوں جس طرح استحکام پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اس سے تو ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سیاست پر چند ہزار خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس پر افسوس یہ ہے کہ میڈیا پر اس پارٹی کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے جیسے کسی نئے سیاسی نظریے کا جنم ہوا ہو۔ حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ مفاد پرستوں کا ایک گروہ ہے جو اکٹھا ہو کر اپنی بولی لگوائے گا۔
ہمارے وہ ادارے جو ملک میں معاشی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ ملک میں سرمایہ داروں اور تاجروں کی بے پناہ منافع کی حِرص کے آگے بند باندھیں۔ ان اداروں کو ملک میں سیاسی عدم استحکام سے کوئی سرو کار نہیں ہونا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بجلی، گیس، ٹیلیفون کے بلز ملک میں کچھ بھی ہو ”باقاعدگی“ سے بھیجے جاتے ہیں، اسی طرح اداروں کو بھی ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے متاثر ہوئے بغیر ملک اور عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دینی چاہئے۔ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ ایک صنعت کار، اور تاجر کے کاروبار کو ڈالر کی قیمت کس حد تک متاثر کرتی ہے اور مارکیٹ میں اس صنعت کار اور تاجر نے کیا ڈالر کے اثر کا اُتنا ہی تناسب اپنی فی یونٹ پرائس میں شامل کیا ہے یا اس سے کہیں زیادہ؟۔ اسی طرح دالیں، چاول سمیت دیگر اجناس، گھی، گوشت، سبزی اور پھلوں کی بازاری قیمتوں کی مؤثر نگرانی کی اشد ضرورت ہے۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے مجھے یہ یقین ہے کہ اگر ہمارے ادارے ملک میں قیمتوں کی مؤثر انداز میں نگرانی کریں تو بڑی حد تک مہنگائی کوروکا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.