بے کار بجٹ

47

انسان جتنا بھی زندہ دل ہو مرنے کے بعد اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اسی طرح کوئی کتنا بھی معاشیات کا علم رکھتا ہو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ بجٹ میں اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
بجٹ پیش ہو چکا مختلف انداز میں اس پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس سے زیادہ بے کار بجٹ دیکھنے میں نہیں آیا۔ وزیر خزانہ بجٹ تقریر کیلئے آئے تو خوش و خرم ہشاش بشاش تھے لیکن بعدازاں جانے کیا ہوا ان سے بجٹ درست انداز میں پیش ہو ہی نہ سکا۔ نہ وہ کانپے نہ وہ ہانپے، ان کے منہ سے کف جاری ہوا نہ ان کا گلا خشک ہوا، بظاہر تو وہ ہوش میں تھے لیکن اس ہوش کا کیا فائدہ جس میں جوش نہ ہو یوں لگا جیسے نرسری کا بچہ آیا اور اے بی سی سنا کر چلا گیا اور تو اور انہوں نے اس موقعہ پر اپوزیشن کو بے بھاؤ کی سنانے کا نادر موقع بھی ضائع کر دیا۔ ایسا ہوتا ہے وزیر خزانہ، یوں بجٹ پیش کیا جاتا ہے، کبھی سوچا نہ تھا۔ بجٹ تقریر نہ ہوئی وزیر خزانہ کی تقریب پذیرائی ہو گئی۔ خراماں خراماں آئے فٹا فٹ چند کاغذ الٹ پلٹ کئے اپنے لئے تالیاں بجوائیں اور چلتے بنے۔
اس موقع پر اپوزیشن نے بھی بہت مایوس کیا، نہ شور شراب نہ دھول دھپہ یوں بیٹھ کر بجٹ سنتے رہے جیسے گونگے بہرے ہوں، کسی سے اتنا نہ ہو سکا کہ گلے پھاڑ کے مخالفانہ نعرے ہی لگوا دیتا۔ اپوزیشن رہنما راجہ ریاض نہایت بھلے آدمی ہیں، ان کے دامن پر کوئی داغ بھی نہیں ورنہ با آسانی کہا جا سکتا تھا کہ وہ دو نمبر اپوزیشن رہنما ہیں۔ وہ بجٹ اجلاس میں نہیں بلکہ
نوراکشتی کیلئے ایوان میں آئے تھے۔ شرافت اپنی جگہ لیکن ایسے موقعوں پر شرافت کو گھر چھوڑ کر آنا چاہئے تھا ان کے ساتھ کم از کم پانچ دس مشٹنڈگان ہونے چاہئے تھے جو کرسیاں اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر پھینکتے اور بڑھکیں مار مار کر سرکاری ارکان قومی اسمبلی اور بالخصوص یہاں موجود خواتین پر دہشت طاری کرتے۔ وہ سب یوں اپنی اپنی نشستوں پر مہذب انداز میں بیٹھے رہے جیسے اسحاق ڈار صاحب کی بجٹ تقریر نے ان کا تراہ نکال دیا ہے اور اب ایسے میں وہ اپنی نشستوں سے اٹھے تو پورے ایوان کو پتہ چل جائے گا کہ ان کا تراہ نکل چکا ہے، یہ تراہ بھی عجیب چیز ہے جس کا نکلے اسے بعض اوقات پتہ نہیں چلتا لیکن اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ساتھیوں یا ایوان میں موجود دیگر افراد کو فوراً معلوم ہو جاتا ہے، حیرانی اس بات پر ہوئی کہ کسی اپوزیشن ممبر میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ جناب سپیکر کی کرسی کا گھیراؤ کرتے، کئی ممبران اپوزیشن کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے، کئی ایسے ہیں جو صنعتی علاقوں کے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، اتنا تو کر سکتے تھے کہ آتے ہوئے لوہے کی ایک بالٹی ساتھ لے آتے اور موقعہ پا کر وزیر خزانہ کے منہ پر الٹی کر دیتے، کوئی انہیں منع کرتا تو جواب دیتے کہ وزیر خزانہ کی جان کو خطرہ ہے۔ خطرے سے محفوظ رکھنے کیلئے بالٹی سے بہتر اور کوئی چیز آج تک ایجاد نہیں ہوئی۔ یاد رہے ایسے موقعوں پر سر پر ڈالی گئی بالٹی میں آنکھوں کی جگہ پر دو سوراخ رکھے جاتے ہیں جہاں سے بالٹی پہننے والے کو نظر آتا رہتا ہے کہ اس نے کدھر جانا ہے۔ اسے کسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر قدم بڑھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی بعض لوگ یہی کام عام زندگی میں سیاہ عینک سے لیتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو دیکھ سکیں لیکن کوئی ان کی آنکھوں میں نہ جھانک سکے اور معلوم نہ کر سکے کہ ”چنا کتھے گزاری اے رات وے“اس کے علاوہ آنکھیں دیکھ کر یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ شخص کس مقدار میں سفید نسوار کا استعمال کرتا ہے۔
بجٹ اجلاس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کردار بہت مایوس کن رہا۔ وہ بھول گئیں کہ اونچی ایڑی والی جوتی کا استعمال کیا ہوتا ہے، انہیں چاہئے تھا کہ جوتیاں اتار کر ایک تال کے ساتھ ٹھکاٹھک تے ڈزا ڈز کرتیں اور اتنا شور برپا کرتیں کہ وزیرخزانہ کے ہونٹ تو ہلتے نظر آتے ان کی آواز اس چھتر میوزک میں دب جاتی۔نصف درجن خواتین نے تو مل کر عورتوں کی ناک ہی کٹوا دی، انکی جگہ ایک رمل شاہ ہوتی تو پوری حکومت بالخصوص وزیراعظم اور وزیرخزانہ کو سیدھا کر دیتی، وہ سیدھے نہ ہوتے تو خود بھرے ایوان میں یوں الٹی ہو جاتی جیسے پنجابی زبان میں گھوڑی بننا کہتے ہیں۔ جن دنوں زمان پارک میوزیکل شو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھے انہی دنوں ایک روز اعلان ہوا کہ کل رمل شاہ خصوصی پرفارمنس کیلئے تشریف لا رہی ہیں، اس اعلان کے بعد اگلے روز یہاں کہاں کہاں سے خلق خدا پہنچی، آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے، آپ کی اطلاع کیلئے اتنا بتا دیتے ہیں کہ ستر فیصد لوگ صوبہ خیبر سے آئے تھے تاکہ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ رات دس بجے خصوصی پرفارمنس شروع ہوئی جس میں مختلف فلمی گانوں پر رقص کے بعد ٹکٹ کٹاؤ لین بناؤ شروع ہوا، حاضرین نے نہایت ذوق شوق سے ایک دوسرے کی کمر پکڑ کر لین بنائی۔ قریباً گھنٹہ بھر کی اودھم چوکڑی کے بعد رمل شاہ دوپٹہ کمر سے باندھ کر میدان میں آگئی۔ آخری گیت سنانے سے قبل اور آخری رقص سے پہلے اس نے ایک یوٹیوبر کو انٹرویو دیا جس کے دو سوال اور دو جواب آپ کے جنرل نالج میں اضافے کیلئے رقم کرنا ضروری ہیں۔ رمل شاہ سے پوچھا گیا کہ آپ خان کو کتنا چاہتی ہیں۔ اس نے جواب دیا خان مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ دوسرا سوال کیا گیا کہ آپ اس کی خاطر کیا کیا کر سکتی ہیں۔ جواب میں رمل شاہ نے فرمایا کہ میں اس کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر سکتی ہوں حتیٰ کہ یہ بھی کر سکتی ہوں، اتنا کہہ کر اس نے دونوں ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالے اور قمیض کو چیر کر اسے بشرٹ بنا دیا پھر اسی طرح وہ آخری رقص ہوا، واقعے کا کلپ اور انٹرویو مع آخری پرفارمنس سوشل میڈیا پر دستیاب ہے اور دنیا بھر سے داد سمیٹ چکا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سوشل میڈیا پر ڈالے جانے والے کلپ پر جتنے کروڑ کلک اتنے ہی زیادہ پیسے، یہ نسل پیسے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو کسی بھی وقت تیار ہوتی ہے۔
اسی محفل میں سرخ لباس میں محو رقص ایک دیہاتی خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ کب سے یہاں ڈیوٹی دے رہی ہیں، جواب ملا تین ماہ سے، پوچھا گیا آپ کو آپ کے خاوند نے روکا نہیں جواب ملا اس کی کیا جرأت مجھے روکے، میں اسے چھوڑ سکتی ہوں اس گھر کے مالک کو نہیں پھر اس نے نوجوان لڑکیوں کو مخاطب کر کے اپنا پیغام ریکارڈ کرایا کہ اگر کسی کا خاوند اسے یہاں آنے سے روکے تو اسے ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر یہاں آجاؤ میرے پاس تم سب کیلئے ہزاروں بندے ہیں۔ فرض کے ساتھ سوشل ورک کی یہ مثال آپ کو کسی اور سیاسی جماعت میں کبھی نہ ملے گی۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں غریب، متوسط اور پڑھے لکھے شریف گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ورکر اور رہنما نظر آتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی میں ایسا نہیں یہاں بہت غریب یا پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ متمول خواتین کی بہتات ہے۔ طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والی اور خصوصاً غیر ملکی شہریت یا تڑکا لگا خواتین پاکستان کو یورپ بنانے اور مادر پدر آزادی والا ملک بنانے کیلئے ایک خاص ایجنڈا لے کر یہاں موجود ہیں جبکہ غریب گھرانوں کی لڑکیاں، گھر سے شہروں میں پڑھنے کیلئے آنے والی لڑکیاں جو ہوسٹلز میں رہتی ہیں وہ انہی ولایتی خواتین سے متاثر ہو کر ایسے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں یہاں آکر اپنا سب کچھ کھو چکی ہیں۔
9مئی کی تخریب کاری میں نظر آنے والی ایک نوجوان لڑکی کی شناخت ہونے پر جب لاہور میں ایک پوش علاقے میں اس کے گھر پر ریڈ کی گئی تو اس کے والد نے بتایا کہ میں اس لڑکی کا والد ضرور ہوں لیکن وہ آج سے ایک برس قبل ”حقیقی آزادی“ حاصل کرنے کیلئے گھر سے گئی تھی پھر واپس نہیں پلٹی۔ لڑکی کے پڑھے لکھے سنجیدہ مزاج باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ بے بسی، بے کسی اور ندامت کی تصویر بنا کھڑا تھا۔
رمل شاہ شاید کبھی غریب ہو مگر اب نہیں، اب اس کا شمار متمول شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ پارٹی سربراہ کی قومی اسمبلی کے امیدواروں کی لسٹ میں ترجیح اول تھی اور ہے۔ اجنبی جس طرح کہیں اکٹھے ہوں تو تعارف کے بعد اپنے وزٹنگ کارڈ ایک دوسرے کو دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں رابطہ رہے، رمل شاہ کے بڑے سے بیگ میں ربر اور پلاسٹک کے بنے ہوئے مختلف لمبائیوں میں دستیاب کھلونے ہوتے ہیں۔ وہ چہرے مہرہ دیکھ کر بلکہ چہرہ پڑھ کر مختلف خواتین کو یہ کھلونا بطور تحفہ پیش کرتی ہے، جس کے بعد دونوں پکی دوستی کے لازوال رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔
شکر ہے رمل شاہ بجٹ تقریر کے موقع پر قومی اسمبلی میں موجود نہ تھی، ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا اس اہم موقعہ پر اپنی پارٹی سربراہ کے حکم پر وہ اپنے بیگ سے ایک کھلونا نکال کر جناب اسحاق ڈار کی ڈیسک پر رکھ آتی، وہ منہ سے کچھ نہ کہتی لیکن خاموشی کی زبان اور کھلونے کی زبان میں انہیں کہا جاتا تم بھی یہی کچھ ہو، جس سیاسی جماعت سے اس کا تعلق ہے وہاں کا نصاب اور حساب کتاب یہی ہے، وہاں گزشتہ کئی برس سے اپنی علوم کی ٹیوشن بلامعاوضہ پڑھائی جارہی ہے بلکہ بعض معاملات میں تو راز آشکار ہوا کہ ذہین طالبات کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے اور انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ انہی مضامین میں محنت کرنے کے بعد امتحان پاس کرنیوالی شائننگ طالبات کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے انتظامات موجود ہیں۔ اس کلچر کی آبیاری کیلئے کیا کیا، کیا گیا یہ ایک کتاب کا موضوع ہے۔ المختصر بجٹ کا مزہ نہیں آیا، اسے بے کار بجٹ کہہ سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.