4 اپریل بھٹو صاحب کی شہادت کے دن سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے یہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کا ہی تسلسل ہے یا آئین کے تحفظ کا ایک تاریخی فیصلہ ہے اس کا فیصلہ تاریخ کے مورخ کو کرنے دیں تو بہتر ہے۔ پچپن سے آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کبھی ایک مختصر وقت میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنی منزل کی جانب چند قدم ہی سہی لیکن بڑھے ضرور ہیں لیکن پھر پتا چلتا ہے جونظر آ رہا تھا وہ توسراب تھا۔ یقین جانیں کہ اب تو گھٹن کا احساس اس حد تک اعصاب پر غالب آ جاتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اندازہ تو کریں کہ زیادہ عرصہ نہیں ہوا فقط ایک سال پہلے عدم اعتماد کی تحریک پر وہ عمران خان اور پوری تحریک انصاف جو کسی طور آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ کروانے پر تیار نہیں تھے بلکہ ہوس اقتدار کے تابع ووٹنگ پر ہی تیار نہیں تھے اس لئے کہ ووٹنگ میں شکست یقینی تھی پھر کس طرح ووٹنگ ہوئی اس کا علم سب کو ہے۔ آج وہی عمران خان اور تحریک انصاف آئین اور قانون کی ٹھیکیدار بنی بیٹھی ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ عوام میں ان کی مقبولیت ہے مقبولیت کا امتحان تو گذشہ سال 25 مئی کے لانگ مارچ سے لے کر جیل بھرو تحریک تک کئی مرتبہ ہو چکا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ مقتدر اشرافیہ میں سہولت کاروں کی موجودگی میں انتخاب چاہتے ہیں تاکہ 2018 کے انتخابات کی طرح ”ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا“ اور جیت یقینی ہو یعنی عوام میں مقبولیت کا اسی طرح سے ڈھنڈورا پیٹو جس طرح نومبر 2022 میں لانگ مارچ کے اختتام پر راولپنڈی میں 25 سے تیس لاکھ بندے اکھٹے کرنے کے دعوے کئے گئے اور پھر جیل بھرو تحریک سے پہلے کہا گیا کہ اتنے لوگ گرفتاریاں دیں گے کہ جیل میں جگہ نہیں بچے گی لیکن ہوا کیا کہ تمام دعوے بس دعوے ہی رہے لیکن حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے تو آئین پر اس طرح کے ٹارگٹڈ عمل درآمد کو آئین اور قانون کی بالادستی کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے پنجاب میں 8 اکتوبر کو الیکشن کروانے کے عمل کو
غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے اور صرف حکم ہی نہیں دیا بلکہ پورا نظام الاوقات بھی ساتھ دیا ہے تحریک انصاف نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ حکومتی اتحاد نے اس فیصلے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اقلیت کا فیصلہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا ہے اس سے پہلے کہ قانونی طور پر اس فیصلے کا کیا ہو سکتا ہے ہمیں بھی پاکستان کے خاص و عام کی طرح یہ حق حاصل ہے کہ بڑے عزت و احترام سے کم از کم اتنا تو پوچھ سکتے ہیں کہ ماسوائے تحریک انصاف کے اگر ملک کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں اور پاکستان بار کونسل نے محترم چیف جسٹس کو بار بار درخواست کی کہ جناب فل کورٹ بنا دیں اس کا جو بھی فیصلہ آئے گا ہمیں منظور ہو گا اور پھر خود سپریم کورٹ کے اندر سے محترم ججز کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں جس میں اس بینچ کی تشکیل پر ہی سوال اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ 9 رکنی بینچ تین رکنی رہ جاتا ہے تو محترم چیف جسٹس صاحب نے اتنے اہم مسئلہ پر اور آئین کی ایک انتہائی اہم شق کی تشریح کے متعلق نامعلوم وجوہات کی بنا پر انھوں نے فل کورٹ بنانے سے انکار کر دیا تو اب اس پر اگر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فل کورٹ اگر بنتا تو فیصلہ اس سے مختلف ہوتا تو پھر اس رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس فیصلہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن فیصلے کے فوری بعد جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے 5 منٹ سے بھی کم وقت کی سماعت میں قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کو ختم کر کے آئین اور قانون کی بالادستی اور سر بلندی کو مزید چار چاند لگا دیے۔ اب کچھ لوگ جو محدود تعداد میں ہیں وہ لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی جرات کیسے کی یہ تو سیدھا سیدھا توہین عدالت ہے اور میاں شہباز شریف بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح توہین عدالت میں نااہل ہوں گے اور میاں صاحب کا شمار چونکہ لاڈلوں میں نہیں ہوتا تو انھیں صرف ایک مدت کے لئے نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ پوری عمر کے لئے نا اہل قرار دیا جائے اس مفروضہ کو مارکیٹ میں لانچ کرنے والے یہ بھول گئے کہ فیصلے کو مسترد کرنے کا فیصلہ صرف وزیر اعظم کا نہیں بلکہ پوری کابینہ کا ہے تو کیا سپریم کورٹ پوری حکومت کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیجے گی۔ ویسے تو جس سپریم کورٹ نے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا ہو اور دو دیگر وزرائے اعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھجوایا ہو اس کے لئے پوری کابینہ کیا پوری اسمبلی کو بھی گھر بھیجنا کوئی اتنا زیادہ مشکل کام نہیں لیکن اب حالات اس کام کے لئے موافق نہیں ہیں یاد کریں کہ 1997 میں جب اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے آرمی چیف جہانگیر کرامت کو اپنے تحفظ کے لئے خط لکھا تو انھوں نے آئین اور قانون کے مطابق وہ خط وزارت دفاع کو بھیج دیا لیکن یقین کریں کہ اس وقت اگر آرمی چیف کا موڈ کچھ اور ہوتا تو پھر آئین اور قانون کے تقاضے بدل بھی سکتے تھے اور ایسی صورت میں ٹرپل ون برگیڈ کا چیف جسٹس کی حفاظت کے لئے حرکت میں آنا کوئی عجیب بات نہ ہوتی۔
کالم کے آخر میں صرف اتنا عرض کریں گے کہ حکومت کوئی پاگل یا بیوقوف نہیں ہے کہ اپنے آپ کو بلاوجہ قربانی کا بکرا بنا کر پیش کرے تو پھر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کرے گی تو قارئین حکومت نے اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلے ہیں عدلیہ اصلاحات کا جو بل اس وقت صدر مملکت کی میز پر ہے اس نے 20 اپریل تک قانون بننا ہی ہے عین ممکن ہے کہ جب مجوزہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے کہ چیف جسٹس سے اختیارات کی منتقلی قانون بدل کر نہیں بلکہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ممکن ہے لیکن اس وقت قانون تو بن چکا ہو گا تو اس کے بعد اگر حکومت موجودہ فیصلے کو چیلنج کرتی ہے تو اس کے لئے پھر جو بینچ بنے گا وہ اکیلے چیف جسٹس نہیں بلکہ دو دیگر سینئر ترین ججز کی کمیٹی مل کر بنائے گی اور اس میں پھر سینئر ترین ججز شامل ہوں گے کہ جن کے فیصلہ کرنے کا معیار اور ترجیحات شاید مختلف ہوں اور اس میں اگر موجودہ فیصلہ کرنے والے بینچ کی تشکیل کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا جائے تو پھر توہین عدالت کا آپشن باقی نہیں رہے گا اور یہ تو فقط ایک آپشن ہے جبکہ حکومت کے پاس آپشن اور وسائل کی کمی نہیں ہوتی لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں استحکام کی بجائے مزید انتشار کے قوی امکانات ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.