مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ وہاں پر متوسط طبقے کا ختم ہو جانا تھا، بہت امیر اور بھکاری کی حد تک غریب رہ گئے تھے۔ کسی بھی کامیاب معاشرت اور ملک میں مڈل کلاس (متوسط طبقہ) کی تعداد دیگر طبقات کی نسبت زیادہ ہو گی۔ دوسرا فرد کا ریاست سے رشتہ مضبوط ہونا، مگر بد نصیبی سے آج ریاست اور فرد کا رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔ مڈل کلاس مٹ رہی ہے۔ ایک طرف آپ کو وہ ملیں گے جو یہ پوچھیں گے کہ آج کیا کھائیں، کس جگہ کھانا اچھا ہے، کونسی گاڑی کتنی قیمت کی ہے۔ دوسری طرف اکثریت دیکھیں گے کہ آج کہاں سے کھائیں، بجلی کا بل کہاں سے دیں، گیس کا بل کون دے گا۔ یہ وہ وقت ہے کہ صبر بھی نہیں ہو سکتا۔ شائد صبر کے لیے بھی کچھ ذرائع چاہئیں۔ قوم تقسیم در تقسیم ادارے تقسیم در تقسیم ہو چلے۔ نفاق، کھچاؤ، انتشار جیسے پالیسی کے طور پر اپنایا جا رہا ہو۔ آج 90 دن میں انتخابات کا ذکر چل رہا ہے، کیا کسی نے نیازی صاحب کو سوال کیا کہ 14 کروڑ کے صوبے پنجاب اور دوسرے بڑے صوبے کی حکومتیں کیوں توڑیں۔ محض اس لیے کہ نیازی صاحب حکومت میں نہیں رہے۔ ضمنی انتخابات میں 10 حلقوں میں سے 8 حلقوں میں خود ہی کھڑے ہونا اور جیت کر حلف نہ اٹھانا جن دو حلقوں میں انتخاب ہار جانا ان میں تحفظات، کیا یہ آئین کا مذاق اور قومی سرمائے کا زیاں نہیں؟ ہوش کے ناخن لیں، انتخابات اکتوبر میں ہو جائیں تو کچھ فرق نہیں ورنہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور پی پی پی، اے این پی کے علاوہ ایوان میں بیٹھے لوگو ضیاء کے 90 دن یاد ہیں ناں۔ برباد معیشت میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ افراتفری کو مقبولیت سمجھنا قانون سے بالا تر ہونا مقبولیت ہے۔ لا آف لینڈ کے لیے سقراط نے جان دی دور کیا جانا ہمارے وطن عزیز میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے لا آف لینڈ کو آنر کیا مگر عجیب صورتحال ہے کہ ملزم انتظار کرے عدالت کب شروع ہو، ادھر عدالت منتظر ہے کہ ملزم کب آئے؟
کرپشن کا کاروبار گلشن کے کاروبار سے زیادہ چل رہا ہو تو کیا کہیں گے۔ مہنگائی نے موت مہنگی کر دی۔ یہ سب اس لیے کہ سٹیک ہولڈر مرحومین ہو گئے اور مرزوق مجبور ہو گئے، بے بس ہو گئے، جھوٹ، دشنام، تہمت، الزام نے معاشرت کی اساس کو برباد کر دیا۔ مرحوم کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ جسٹس رستم کیانی اٹارنی جنرل کے عہدے کے بارے میں کہتے ہیں۔ ”اٹارنی جنرل کا کام یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں وفاقی حکومت کے ہر جا و بیجا فیصلے کا دفاع کر کے اسے قانونی تحفظ فراہم کرے جو وکیل جتنی کامیابی سے غیر قانونی فیصلوں کے لیے جواز پیدا کرے وہ اتنا ہی بڑا اٹارنی جنرل سمجھا جاتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کیانی صاحب کہتے ہیں ’یہ واقعہ چودھری نذیر احمد خان مرحوم کے گھر پر ہوا۔ آدھا ثواب ان کی روح کو ملا۔ مرحوم سے کہیں یہ نہ سمجھئے گا کہ وہ خدانخواستہ سرگباش ہو گئے ہیں۔ وہ بالکل زندہ ہے، بلکہ اس وقت بھی موجود ہیں۔ مرحوم کا مفہوم جو کچھ ہو، میرا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان پر رحم کرے کیونکہ وہ اٹارنی جنرل ہو گئے ہیں۔ اللہ بخشے انہیں، یعنی جب بخشنے کا وقت آئے بیچارے اچھے آدمی تھے۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے کبھی کبھی شعر بھی سنا دیتے تھے۔ مگر میری نظر ان کے کسی اور پہلو پر رہتی تھی وہ کبھی کبھی کوئی خطبہ پڑھتے تو آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے اور اس کی نقل میرے پاس بھی بھیج دیتے تھے۔ میں پڑھ کر خوش ہوتا تھا۔ مگر خدا ان کی روح کو نہ شرمائے اب وہ اٹارنی جنرل ہو گئے ہیں۔‘ کیانی صاحب کی تنقید کا وار اتنا کاری تھا کہ چودھری نذیر احمد نے دسمبر 1961 میں اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفا دے دیا اور پھر اس طرح ان سے اپنا قلبی رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہو گئے“۔
دراصل یہ واقعہ میں نے اس لیے دہرایا کہ اٹارنی جنرل صرف ایک مثال ہے، ایک استعارہ ہے ورنہ ہمارے ہاں تو سپاہی سے لے کر آئی جی، پٹواری سے چیف سیکرٹری، تحصیلدار سے کمشنر اور اس سے اوپر تک، سول جج سے چیف تک سب مرحومین ہو گئے۔ سپیشل عدالتوں کے ممبر، جج صاحبان آپ کسی بھی شخص کو دیکھ لیں جس کے پاس سرکار کی مہر ہے، عہدہ ہے وہ مرزوق یعنی عوام کو رعایا سمجھنے لگ گیا۔ کارکردگی کے بجائے کرپشن کی دوڑ میں شامل ہو گیا۔ ایک طرف سٹیک ہولڈرز ہیں جو مرحومین ہو گئے جو اپنے سے اوپر یا اپنے مفادات کو پیارے ہو گئے۔ دوسری طرف عوام ہیں مرزوق ہیں جو دربدر اور رسوا ہو گئے۔ کیا پورے ملک میں کوئی ان کی بات کرتا ہے؟ جب عدلیہ، انتظامیہ اور ادارے جانبدار ہو جائیں، تقسیم ہو جائیں تو پھر عام آدمی کا ریاست سے معاہدہ ٹوٹ جایا کرتا ہے۔ جس قوم میں اعتماد کا فقدان ہو، غیر جانبداری اور حقیقی شعور اور انصاف ناپید ہو اس کی تاریخ، اس کا مورخ نہیں کوئی اور ہی لکھا کرتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب سرکاری آفیسر تھے، ایوب خان کے ساتھ جسٹس رستم کیانی کے خلاف تقریریں بھی کر لیا کرتے تھے۔ مگر جسٹس صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا قرض اتار دیا پھر شہاب صاحب نے بھی ایوب خان کے دور حکومت کی حقیقی چیرہ دستیوں کی نشاندہی اور بیان کر کے جسٹس صاحب کے متعلق اپنے بیانات کا ازالہ کر دیا۔ بے وقت کی راگنی تاریخ تو درست کر سکتی ہے قوم کو پہنچنے والی گزند اور تاریخ کے دھارے میں بہہ جانے سے نہیں بچا سکتی۔ کاش ہمارے سٹیک ہولڈرز مرحومین نہ ہوتے اور عوام مرزوق نہ ہوتے۔ ایک طرف کالے ڈالے پر کالے کردار والے نو دولتیے جا رہے ہوتے ہیں دوسری طرف مفت آٹا لینے والے آٹے کے ہاتھوں مرے جا رہے ہیں۔ 2200 روپے من گندم دینے والے واپس 6000 روپے من بھی نہیں لے پا رہے۔ کاش یہ مرحومین آئین اور قانون کے تابع رہتے کہ مرزوق کی ضروریات زندگی حسرتوں میں نہ بدلتیں۔ آج کے حالات کے ذمہ دار کون ہیں، سب کو علم ہے۔ مگر تاریخ میں پہلی بار سنا ہے کہ جن کو رول ماڈل ہونا چاہئے تھا وہ ایک دوسرے کو سرعام ننگی گالیاں دے رہے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو مقبولیت کا امیدوار بھی سمجھا جانے لگا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.