نیگٹو ووٹنگ کا خانہ

18

پاکستانی سیاست کا موازنہ اگراس اونٹ کے ساتھ کیا جائے جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوتی تو زیادہ غلط نہ ہو گا، یعنی جن لوگوں کوعام آدمی کے لیے ایک مثال ہونا چاہیے وہ جھوٹ، دھوکا بازی، کرپشن اور یوٹرنز کا قطب مینار بنے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ بہت فخر سے اپنے بڑے بڑے جلسوں اور بہت زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی انٹرویوز کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اس قسم کا کریڈٹ لیتے وقت وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مجمع تو بندر کا تماشہ دکھانے والا بھی لگا لیتا ہے اور وہ ٹی وی پروگرام بھی کم مقبول نہیں جن میں آ کر بھانڈ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جانے یہ لوگ اپنی عزت کا خیال خود کیوں نہیں کرتے ، ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولنا،سینہ ٹھوک کر رشوت لینااور وقت اور ضرورت کے پیش نظر بے پیندے لوٹے کی طرح ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں لڑھک جانا ان کے خیال میں کوئی عیب ہی نہیں ہے۔اس قسم کے کیریکٹرز کو دیکھتے ہوئے سیاسی فنکاریاں کو تین بنیادی کیٹیگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
پہلی کیٹیگری میں مختلف سیاستدان اپنی انفرادی حیثیت میں کاروائیاں کرتے ہیں، پھر ایک گروپ شوکی کیٹیگری ہے جس میں ایک ہی پارٹی کے یا مختلف پارٹیوں کے ’لیڈران‘ شامل ہوتے ہیں اور وہ اسمبلی اجلاس یا کسی ٹی وی ٹاک شو میں سٹیج فنکاروں کی طرح اپنی پرفارمنس دیتے ہیں۔ اور تیسری قسم پارٹی کی سطح پر فنکاریوں کی ہے اس میں سیاسی ڈرامہ کا پلاٹ پارٹی کی سطح پر پلان کیا جاتا ہے اور مختلف چھوٹے بڑے سیاستدان اس میں کٹھ پتلی کی طرح اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تینوں کیٹیگریز اگرچہ مختلف نظر آتی ہیں لیکن ان کااصل مقصد صرف اور صرف کرپشن کرنا اور حصول اقتدار کی کوششوں میں لگے رہنا ہی ہے۔
بات اگر سیاسی پارٹیوں کی ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی میدان میں تین پہلوان پارٹیاں سب سے زیادہ اہم ہیں جواپنے اپنے انداز میں عوام کو بےوقوف بنا نے میں مصروف ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ ان کی فنکاریوں سے
زیادہ ہمارے عوام کا بھولا پن ہے کہ ان کا چورن بدستور بکتا چلا جا رہا ہے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔
ان سیاسی پارٹیوں میں اگر پاکستان تحریک انصاف کا ذکر سب سے پہلے کر لیا جائے تو بہتر رہے گا۔
کئی سال تک ایک ٹانگہ پارٹی رہنے والی یہ سیاسی جماعت جانے کون سے عوامل کے تحت یکا یک ایک مقبول اور بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ 2013ءسے کسی نہ کسی طور حکومت میں رہنے والی اس جماعت سے کوئی مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں قائم رہنے والی انکی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سوال کرے تو گویا وہ اپنی شامت اعمال کو دعوت دے گا۔ دوسروں کو اخلاقیات اور ایمانداری کا بھاشن دینے والی اس پارٹی کی اصل کہانی تو ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے سامنے آنا شروع ہوئی ہے۔ ان کی اعلیٰ ترین قیادت سے لے کر کارکن لیول تک لوگوں نے کرپشن کے ایسے ریکارڈ قائم کیے ہیں کہ اب ان کی ایمانداری اور اصول پسند سیاست کے نعروںکا تو خیر جنازہ ہی نکل ہی گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ ان کا ایک ہی اصول ہے کہ اصول صرف دوسروں کے لیے ہوتے ہیں۔
بات اگر پیپلز پارٹی کی ہو تو کچھ عرصہ پہلے تک اس کے بارے میں یہ تاثر قائم ہو چکا تھا کہ یہ بس اب ایک اندرون سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے ۔ اس کے قائد آصف علی زرداری صاحب پر کرپش کے الزامات تو بے شمار لگتے ہیں اور اس چکر میں انہوں نے لمبی لمبی جیلیں بھی کاٹی ہیں لیکن ان پر ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ویسے تو پیپلز پارٹی کا ذکر آتے ہی دماغ میں بری گورننس اور کرپشن کی بات ہی ذہن میں آتی تھی۔ لیکن حقیقی معنوں میں جوان قیادت یعنی بلاول زرداری کے پارٹی کمان سنبھالنے کے بعد اس کی کارکردگی میں بہتری آنے کے خاطر خواہ امکانات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
سیاست کے اس جوہڑ میں نواز لیگ کا کردار بھی کوئی صاف ستھرا نظر نہیں آتا لیکن طریقہ کار بہت مزے دار ہے ۔ بلاشبہ یہی پارٹی پاکستان میں پیسے ، گالی گلوچ اور اخلاق سے گرے ہو الزامات لگانے کی سیاست کی بانی ہے۔ نوے کی دھائی میں جس طرح جوتیوں میں دال بٹی اس سے سب واقف ہیں لیکن مزے کی بات یہ کہ اس وقت کی گندی سیاست میں نواز شریف کی پلوٹون کا کمانڈر ، شیخ رشید ، آج کل عمران خان کے لیے اسی قسم کی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس کو نواز لیگ کی خوش قسمتی کے علاوہ اور کیا کہیں گے کہ انہوں نے نو سو چوہے بھی کھا لیے اور حج پر بھی چلے گئے۔ یعنی ان پر ٹیکنیکل طریقے سے اربوں روپے کی کرپشن کرنے کا الزامات بھی موجود ہیں لیکن ان کا ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ بھی عوام میں پذیرائی حاصل کر گیا۔ ہر کرپشن کے الزام کے جواب میں شریف خاندان بس یہی راگ الاپتا رہا کہ اگر ان کے خلاف ایک پیسے کی بھی کرپشن ثابت ہو گئی تو یہ سیاست چھوڑ دیں گے، پھانسی چڑھ جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اب جو بھی ہو ایک پیسے کی کرپشن تو انہوں نے یقینا نہیں کی ہوگی اس لیے نہ تو ان کے سیاست چھوڑنے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی پھانسی چڑھنے کا۔ ان کی اعلیٰ قیادت نے بھی نئی نسل میں سے اپنے ہی خاندان کے دو لوگوں یعنی مریم نواز اور حمزہ شہباز کو سیاسی میدان میںاتارا تو تھا لیکن ایک تو ان پر ابھی سے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں اور دوسرا وہ اب تک سیاست کے میدان میں کوئی متاثر کن کارکردگی دکھانے سے بھی قاصر ہیں۔
گویا سیاست کی اس منڈی میں سبھی سبزیاں گلی سڑی ہیں لیکن چونکہ چوائس انہیں میں سے کرنی ہے اس لیے مستقبل قریب میں حالات بدلنے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ پنجاب اور خیبر پخونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات عنقریب متوقع ہیں شائد کچھ عرصہ میں قومی اور اور دیگر دوصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہو جائیں لیکن اس تمام ایکسرسائز سے ہمیں صورتحال میں کسی بھی قسم کی بہتری کی توقع نہیںرکھنی چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر چند سال قبل بیلٹ پیپر میں نیگیٹو ووٹنگ کے خانے کے اضافہ کی تجویز پر ایک مرتبہ پھر سے غور کیا جائے۔ اس کا کم از کم یہ فائدہ تو ضرور ہو گا کہ عوام یہ پیغام پہنچانے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکیں گے کہ ان گلے سڑے اور بدبودار سیاستدانوں میں سے انہیں کوئی بھی قابل قبول نہیں۔

تبصرے بند ہیں.