چلئیے آج آپ کو 1971 میں لے جاتے ہیں۔ جب بھی مارچ کا مہینہ آتا ہے مجھے مشرقی پاکستان کا یکم مارچ، 7 مارچ، 23 مارچ اور 25 مارچ یاد آجاتا ہے۔ 3 مارچ کو اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہونا طے تھا۔ پہلی مارچ کے دن ڈھاکہ اسٹیڈیم میں کامن ویلتھ اور پاکستان کی ٹیم کے درمیان کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ اسی دوران پاکستان کے صدر جنرل یحی خان کا بیان آ گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے۔ یہ خبر پورے مشرقی پاکستان میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر جگہ احتجاج شروع ہوگیا۔ ڈھاکہ اسٹیڈیم میں ہنگامہ اور توڑ پھوڑ شروع ہوا اور گیم ختم کردیا گیا اور وہاں موجود غیر بنگالی تماشائیوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا گیا۔ شام کو ہوٹل پور بانی میں شیخ مجیب نے پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور 3 مارچ کو مکمل ہڑتال کا اعلان کیا۔ ہوٹل کے باہر ہجوم نے قائد اعظم کی تصویر پھاڑی اور پاکستانی جھنڈے کو آگ لگا دیا۔ اس دن سے پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کی شامت آ گئی۔ بپھرے ہوئے بنگالیوں کی مشکل یہ تھی کہ مغربی پاکستان ان سے ہزاروں میل دور تھا۔ پاکستان کی قلیل تعداد میں فوج بیرکوں میں بند تھی۔ بنگالی اپنی جائدادوں کو آگ لگا نہیں سکتے تھے۔ اپنے لوگوں پر تشدد کر نہیں سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ان آبادیوں پر چڑھائی کردی جہاں جہاں غیر بنگالی رہتے تھے۔ 3 مارچ کو تشدد میں مزید اضافہ ہوا۔ شیخ مجیب نے 7 مارچ کو جلسہ بلا لیا۔ فوجی جاسوسوں نے حکام کو خبر پہنچائی کہ شیخ مجیب جلسے میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیں گے۔ فوجی حکام کی جانب سے انہیں سخت پیغام بھجوایا گیا کہ ایسا نہ کیا جائے۔ دوسری جانب عوامی لیگ کے حامیوں کا شیخ مجیب پر شدید دباؤ تھا کہ ہر قیمت پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کریں۔ ان کے گھر پر بنگلہ دیش کا نیا پرچم بھی آویزاں کر دیا گیا تھا۔ جلسہ کے اسٹیج پر بھی بنگلہ دیش کا پرچم لگا ہوا تھا۔ مجیب نے آزادی کا اعلان تو نہیں کیا مگر اسی دن پاکستان کی ریاست کا مشرقی پاکستان پر سے اختیار ختم ہو گیا۔ مجیب نے سول نا فرمانی کی تحریک چلا دی۔ یہ اعلان کردیا کہ آج سے کوئی بھی پاکستان کی حکومت کا کوئی حکم نہ مانے۔ کسی مالیاتی ادارے سے کوئی رقم مغربی پاکستان نہ بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ 8 مارچ کے دن سے ہر روز مجیب کے دفتر سے حکمنامے جاری ہونا شروع ہوئے۔۔ ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ بنگال رجمنٹ نے عسکری حکم ماننے سے انکار کردیا۔ پورے صوبے میں انار کی شروع ہو گئی۔ غیر بنگالی آبادیوں پر حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 25 مارچ تک آئے دن یحییٰ خان، مجیب اور بھٹو کے مابین مذاکرات کی خبریں آتی رہیں۔ کبھی سمجھوتہ ہونے اور کبھی ٹوٹنے کی خبریں۔ مجیب ایک طرف مذاکرات میں یحییٰ اور بھٹو کو مصروف رکھتا اور دوسری جانب عوام کو بھڑکاتا جاتا۔ ایسے میں 23 مارچ آگیا۔ بھٹو سمیت مغربی پاکستان کے کئی سیاسی رہنما مشرقی پاکستان ہی میں تھے جن میں جماعت اسلامی، نیپ، مسلم لیگ کے رہنما یان شامل تھے۔ اس دن گورنر ہاؤس اور کنٹونمنٹ کے علاوہ کہیں بھی پاکستان کا پرچم نہیں تھا بلکہ ہر گھر اور ہر عمارت پر بنگلہ دیش کا پرچم لگا تھا۔ مجیب کے کارکنوں نے اعلان کر دیا تھا کہ مغربی پاکستان کا جو بھی رہنما 23 مارچ کو مجیب سے ملنے آئے گا اپنی گاڑی پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لگا کر آئے
گا۔ شنید ہے کہ چند نے مجیب کی خوشامد میں ایسا کیا بھی تھا۔ البتہ ان غیر بنگالی آبادیوں میں کھلے عام پاکستانی پرچم لگائے گئے تھے جنہیں آج بھی پاکستان کے لوگ “بہاری” کہہ کر حب الوطنی کی توہین کرتے ہیں۔ بعد میں جب بنگلہ دیش آزاد ہو گیا تو مکتی باہنی نے ان پاکستانیوں کی آبادی میں رہنے والوں کو چن چن کر شہید کر دیا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر چھاؤنی میں بند فوج کے جنرلوں نے فیصلہ کیا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ شرپسندوں کو سختی سے کچل دیا جائے۔ خفیہ فیصلے ہوئے مگر یہ اطلاع عوامی لیگ کو پہلے ہی مل چکی تھی کہ عنقریب آرمی آپریشن شروع ہو جائے گا۔ شیخ مجیب نے آزادی کی ایک فورس وقت سے پہلے ہی بنا لی تھی جس کا نام مکتی باہنی یعنی لبریشن فورس رکھا گیا تھا۔ گو کہ اس کا باقاعدہ اعلان تو بعد میں کیا گیا تھا مگر غیر اعلانیہ اس فورس نے کاروائی شروع کر دی تھی۔ اس
کی قیادت ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کرنل عثمانی کو دے دی گئی تھی۔ جو ہزاروں بنگالی جوانوں کو 25 مارچ سے پہلے ہی لے کر بھارت فرار ہو چکے تھے۔ آپریشن سے پہلے ہی مجیب نے اپنی پارٹی کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو بھارت چلے جانے کا حکم دیا تھا۔ وہ خود نہیں گیا کہ ممکنہ مذاکرات کے سلسلے میں وہ موجود رہے۔ 25 مارچ کو آپریشن سے پہلے ہی ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ بنگال رجمنٹ نے بغاوت کردی تھی۔ وہ اسلحوں سمیت ندی نالوں اور کھیتوں سے ہوتے ہوئے بھارت کی طرف بھاگ رہے تھے۔ راستے میں چھوٹے شہروں میں آباد غیر بنگالیوں کا صفایا بھی کرتے جا رہے تھے۔ پچیس اور چھبیس کی درمیانی رات پاکستان کی فوج نے آپریشن شروع کردیا۔ اس سے عام لوگ گھبرا گئے اور ڈھاکہ شہر تقریباً خالی ہو گیا کیونکہ شہر میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو گاو¿ں دیہاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ آج بھی عید بقرعید کے دنوں میں ڈھاکہ شہر سنسان ہو جاتا ہے۔ فوج کو وہی لوگ ملے جو اسلحہ کے ساتھ مقابلے کے لئے سامنے آئے یا وہ معصوم لوگ جو شک کی بنیاد پر مارے گئے۔ ڈھاکہ شہر سے نکلنے ہی میں فوج کو کئی کئی ہفتے لگے اور جب یہ مارچ کرتے ہوئے سرحدی علاقوں کی طرف جانے لگے تو ہر شہر اور قصبوں میں انہیں غیر بنگالیوں کی لاشیں ہی لاشیں ملیں۔ میمن سنگھ اور سانتا ہار جیسے شہروں میں جن غیر بنگالیوں نے مسجدوں میں پناہ لی تھی بنگالیوں نے وہاں بھی گھس کر سب کو شہید کر دیا تھا۔ پاکستان کے فوجیوں نے مسجدوں میں کئی کئی فٹ خون کی تہیں دیکھیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب “پاکستان کیوں ٹوٹا” میں اس قتل عام کی تفصیل درج ہے۔ اس کے علاوہ عظمت اشرف کی اردو اور انگریزی کتاب “ریفیوجی” میں ٹھاکر گاؤں، دیناج پور وغیرہ میں بہاریوں کے قتل عام کی تفصیل درج ہے۔ جمیل عثمان کی کتاب “جلاوطن کہانیاں” میں سچی کہانیاں ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں حقیقتا” ہوا کیا تھا اور پاکستانیوں کو بتایا کچھ بھی نہیں گیا۔ کرنل صدیق سالک نے اپنی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” میں لکھا ہے کہ بنگالیوں کی بہاریوں پر مظالم کے سلسلے میں ان جیسے جونئیر فوجی افسران نے جب جنرلوں کو یہ تجویز دی کہ اس قتل عام کی خبروں کو عام کیا جائے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہم نے فوجی آپریشن کیوں کیا تو انہیں جنرلوں سے یہ جواب ملا کہ ایک تو ایسا اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا کرنے سے دنیا میں ہماری یہ بدنامی ہوگی کہ پاکستان کی فوج اپنے شہریوں کا تحفظ نہیں کر سکی۔ دوم یہ کہ دو قومی نظریہ متاثر ہوگا کہ مسلمان نے مسلمان کا قتل عام کیا۔ سوم یہ کہ مغربی پاکستان میں مقیم بنگالی غیر محفوظ ہو جائیں گے۔
ایک غلطی فوج نے یہ کی کہ آرمی آپریشن سے پہلے تمام غیر ملکی نامہ نگاروں کو مشرقی پاکستان سے نکال دیا۔ ان میں سے بیشتر کلکتہ منتقل ہوگئے اور ان کو جو خبریں بھارت دیتا تھا اسے ہی وہ آگے پھیلا دیتے تھے۔ اس طرح شروع ہی سے بی بی سی اور دیگر پرنٹ میڈیا پاکستان کی مخالف خبریں پھیلاتا رہا اور غیر بنگالیوں کے قتل عام کی خبریں دنیا کو تو کیا پاکستان کے عوام تک کو نہ مل سکیں۔ 16 دسمبر کو جب بنگلہ دیش آزاد ہو گیا تو ان غیر بنگالیوں کی لاشیں جنہیں مکتی باہنی نے مار کر اجتماعی قبروں میں ڈال دیا تھا انہیں خود ہی نکال کر غیر ملکی نامہ نگاروں کو یہ کہہ کر دکھایا کہ یہ ان بنگالیوں کی لاشیں ہیں جن کو پاکستانی فوجیوں نے ہلاک کیا تھا۔
یہ ہے مارچ اور اپریل کی وہ حقیقت جس پر خود پاکستان نے بوجوہ پردہ ڈالے رکھا۔ بھارت اور بنگلہ دیش آج باون برس بعد بھی بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں تاکہ اقوام متحدہ میں اس معاملے کو اٹھا کر پھر پاکستان کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے کر جایا جائے۔ اور پاکستان کی بے خبری کا حال یہ ہے کہ اس کو یہ تک نہیں معلوم کہ امریکہ کے دو اراکین کانگریس نے ایک قرارداد کانگریس میں جمع کروائی ہوئی ہے کہ 1971 میں پاکستان نے مشرقی پاکستان میں ہندووں اور بنگالیوں کی نسل کشی کی تھی۔ صدر امریکہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس نسل کشی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.