ذیابیطس۔۔۔۔ام الامراض،علامات اور وجوہات

61

کئی دفعہ آپریشن سے پہلے یا روٹین میں جب اپنے ٹیسٹ کرانے کے ساتھ ساتھ بلڈ شوگر کا ٹیسٹ کرایا جاتا ہے تو اس کی مقدار لگ بھگ 200 سے 400 کے درمیان بھی آ جاتی ہے۔ یہ اس مریض کے لئے حیران کن بات ہوتی ہے اس لئے کہ اس ٹیسٹ سے پہلے انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ ایک بہت ہی دائمی بیماری ذیابیطس کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب بلڈ شوگر کے بعد ڈاکٹر سے مشورہ کیا جاتا ہے کہ انہیں پیاس زیادہ لگ رہی ہے، بار بار پیشاب کی کثرت ہے اور وزن بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ جب مزید اس سے پوچھا جائے تو وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے والد یا والدہ میں سے کسی ایک کو شوگر رہی ہے اور اخیر عمر میں شوگر کی وجہ سے ان کی بیماری بھی متاثر رہی یا ان کے گردے پر اثر ہو گیا اور گردے پر اثر ہونے کی وجہ سے ان کا ڈائیلاسز بھی ہوتا رہا۔ ذیابیطسی مریضوں کی یہ ایک عام سی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو بے آواز ہے۔ کسی قسم کا درد یا کوئی تکلیف پہلے پانچ سے دس سال دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جسم اندر ہی اندر شوگر بڑھنے کی وجہ سے متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، خون کی نالیاں چھوٹے اور بڑے اعضائے رئیسہ میں تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اعضائے رئیسہ متاثر ہو کر بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایک ایسا مریض جو اپنے جسم میں دس سے پندرہ سال سے شوگر کی مٹھاس لئے گھوم رہا تھا، اب آہستہ آہستہ اس کی آنکھوں پر بھی اثر شروع ہو جاتا ہے، گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بات بڑھتے بڑھتے بینائی کے جانے تک آ پہنچتی ہے۔ کچھ لوگوں میں ہاتھوں میں سوئیاں چبھنا شروع ہو جاتی ہیں اور کچھ کے ہاتھ اور پاؤں کے زخم ٹھیک نہیں ہوتے اور بالآخر انہیں ہاتھ اور پاو¿ں کی انگلیاں کٹوانا پڑ جاتی ہیں۔
ہم آپ کو شوگر سے ہونے والی ہولناکیوں سے ڈرا نہیں رہے بلکہ یہ باور کرا رہے ہیں ایک ایسا مرض جس پر بآسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور مرض کے باوجود بالکل نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اس کو یوں نظرانداز کرنا اور اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو خراب کرنا اور اندرونی اعضا کو ضائع کرنا یہ کسی طور مناسب نہیں۔ شوگر کو ایک بہت عام سے ٹیسٹ کے ذریعے سے پکڑا جا سکتا ہے جسے نہار منہ شوگر کا ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اسے کرنے کے لئے کم وبیش 12 سے 14 گھنٹے کچھ کھانے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ اس دوران سادہ پانی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلڈ شوگر ٹیسٹ کرنے کے بعد فوری طور پر اس کا رزلٹ سامنے آتا ہے اور جب نہار منہ شوگر کی مقدار سو ملی گرام پر ڈیسی لیٹر سے زیادہ ہو جائے تو ہمیں شوگر کے بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔ اگر یہ مقدار دو سو سے زیادہ ہو تو شوگر یقینی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ شوگر کا ٹیسٹ کرنے کے بعد ہمیں چند روز کے وقفے کے بعد دوبارہ یہی ٹیسٹ کرانا ہوتا ہے۔ اگر دو مختلف اوقات میں خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہو تو ذیابیطس کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ ذیابیطس عمومی طور پر بڑوں کی بیماری تصور کی جاتی ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں جن میں موٹاپا ہو، چلنے پھرنے اور ورزش کرنے کے عادی نہ ہوں، حرکت ومعمولات اعتدال میں نہ رہیں،
زیادہ تر انہی لوگوں میں شوگر کا مرض دیکھا جاتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بچوں کو اس مرض سے استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ مرض بچوں کو بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ لاحق ہو سکتا ہے جتنا کہ بڑوں کو۔ بچوں میں ہونے والی ذیابیطس بڑوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور اس کے بہت ہی خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی ہمیں جاننا ضروری ہے کہ بڑوں کی ذیابیطس کا علاج تو ادویات کے ذریعے کیا جا سکتا ہے لیکن بچوں کی ذیابیطس کے علاج کا واحد طریقہ انسولین کا استعمال ہے۔
ذیابیطس کی تشخیص ایک قطرہ خون سے کی جا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ مریض کم سے کم 12 سے 14 گھنٹے تک کھائے پئے بغیر آئے اور اس کے خون کا سیمپل لیا جائے۔ اگر نہار منہ شوگر کی مقدار 70 سے100 ملی گرام ڈیسی لیٹر ہے تو یہ نارمل تصور کی جائے گی۔ نہار منہ شوگر کی تعداد 126 ملی گرام سے زیادہ ہو یا رینڈم شوگر کی مقدار 200 ملی گرام سے زیادہ ہو اور دو مختلف مواقع پر ٹیسٹ سے ایسا سامنے آیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ مریض ذیابیطس کا شکار ہے۔
اگر نہار منہ شوگر کی مقدار 100 سے 125 mg/dl ہو یا اگر جی ٹی ٹی ٹیسٹ 2گھنٹے کے بعد 140 سے 199 ملی گرام پر ڈی ایم اے ہوتی ہے تو اسے پری ڈائیبیٹک کہا جاتا ہے۔ آج کل ایک اور ٹیسٹ بھی ذیابیطس کی تشخیص کے لئے کیا جاتا ہے جس کو HVA1C کہا جاتا ہے۔ یہ خون میں شوگر کے پچھلے تین ماہ میں پائے جانے والے اوسطاً معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر کسی شخص میں HbA1C کا لیول 5.7 سے کم ہو تو یہ نارمل تصور کیا جاتا ہے اور اگر 6.4 سے زیادہ ہو تو ذیابیطسی مریض تصور کیا جائے گا اور اگر ان دونوں کے درمیان ہو تو اسے پری ڈائیبیٹک کہا جاتا ہے۔ پری ڈائیبیٹک کا مطلب ہے کہ اس مریض کو ابھی شوگر کا مرض لاحق تو نہیں ہوا لیکن اس میں شوگر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر ان لوگوں میں احتیاط نہ کی جائے تو آئندہ چند سال میں ذیابیطس ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ 65 سال کی عمر میں شوگر کی مقدار تھوڑی زیادہ ہوتی ہے خاص طور پر کھانے کے بعد۔ وزن کو 5سے 10 فیصد کم کر کے ذیابیطس کے امکان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پری ڈائیبیٹکس میں آگے چل کر ذیابیطس ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ذیابیطسی افراد میں دل کا دوروہ پڑنے، فالج ہونے، گردے اور آنکھ ضائع ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ذیابیطس کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صحت مند خوراک استعمال کی جائے جس میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار کم ہو۔ تیل کم ہو۔ ایسے افراد کو ورزش کرنے، وزن کو مناسب انداز میں رکھنے اور بلڈ شوگر کم کرنے کے لئے ادویات کا استعمال بھی ضروری ہے۔
ذیابیطس کی ایک اور قسم کو حمل کی ذیابیطس بھی کہا جاتا ہے جو خواتین میں دورانِ حمل دیکھی جاتی ہے اور بچے کی ڈلیوری کے بعد یہ ازخود ختم ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس کی علامات بہت زیادہ ہیں۔ اگر کسی شخص کو بار بار پیاس لگے، بغیر کسی مشقت کے وزن کم ہونا شروع ہو جائے، بار بار پیشاب کی حاجت ہو، کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کرتا ہو، اس کے ساتھ ساتھ اگر اس کے رویے میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہوں یا بصارت متاثر ہو رہی ہو یا زخم بھرنے میں دیر لگ جائے یا جسم کے مختلف حصوں میں انفیکشن بار بار ہو رہی ہو تو ایسے شخص میں خون کا معائنہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ علامات ذیابیطس کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ ذیابیطس کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں۔ قسم دوئم کی ذیابیطس کا شکار عموماً چالیس سال سے بڑی عمر کے افراد ہوتے ہیں لیکن قسم دوئم اب بچوں میں بھی دیکھی جا رہی ہے جبکہ قسم اول کی ذیابیطس کا شکار عموماً بچے ہوتے ہیں۔ ہمارے جسم میں ذیابیطس کی وجہ انسولین کی کمی ہے۔ یہ ایک ایسا ہارمون ہے جو انسانی جسم میں شوگر کی مقدار کو مناسب رکھتا ہے۔ جب جسم میں انسولین کی مقدار مناسب نہ رہے یا کم ہو جائے تو خون میں موجود شوگر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے اس انسان کے مختلف اعضاءشوگر کی زیادتی کی وجہ سے خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ نقصان کا تناسب شوگر کی مقدار کے ساتھ ساتھ شوگر کے دورانیے سے بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص میں شوگر کی مقدار مسلسل زیادہ رہے تو پانچ سے دس سال کے بعد مختلف اعضائے رئیسہ میں اس کے اثرات دیکھنے میں آتے ہیں جیسے دل کی نالیوں پر اثر، گردے پر اثر، بصارت اور سماعت پر اثر۔ اعضائے رئیسہ کے ساتھ ساتھ انسان کا دفاعی نظام بھی آہستہ آہستہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بیرونی جراثیموں کے خلاف مدافعت کم ہونے کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضاءمیں یکے بعد دیگرے انفیکشنز دیکھی جاتی ہیں۔
ویسے تو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ذیابیطس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ مرض خاندانوں میں چلتا ہے۔ اگر کسی بچے کے والد یا والدہ یا دونوں میں ذیابیطسی رجحان ہو تو بچے میں ذیابیطس ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ماحولیاتی اثرات بھی ہیں جو قسم اول کی ذیابیطس یعنی بچوں میں ذیابیطس کا باعث بنتے ہیں۔ بچوں میں ہونے والی ذیابیطس میں بچے کا جسم اپنے ہی سیلز کے خلاف اینٹی باڈیز بنا کے انہیں ضائع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے انسولین بننے کا عمل کم ہو کر ذیابیطس کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ قسم دوئم، یا بڑوں میں ہونے والی ذیابیطس میں کچھ خاندان اور کچھ نسلیں جیسے حبشی، ایشیائی امریکی اور امریکہ میں مقیم ہندوستانی اور ہسپانوی لوگ، ان میں ذیابیطس کا مرض زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سے انسان کے وزن کا ذیابیطس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ایسے لوگ جن کا وزن ایک خاص حد سے زیادہ ہو، ان میں ذیابیطس کی مختلف اقسام زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔
ذیابیطس کا مرض اتنا عام ہوتا جا رہا ہے کہ ہر 10 میں سے ایک شخص ذیابیطس کا مریض ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس مرض کے حوالے سے عوام کو آگاہ کریں اور ایسے لوگ جن کا وزن زیادہ ہو یا جن کے خاندان میں ددھیال یا ننھیال کی طرف سے ذیابیطسی رجحان پایا جاتا ہو یا جو ورزش سے بھاگتے ہوں یا جن کا کام زیادہ تر دفاتر میں بیٹھ کے کرنے والا ہو یا جو بیکری آئٹمز اور کولا مشروبات کا استعمال زیادہ کرتے ہوں، انہیں چاہئے کہ ذیابیطس کے حوالے سے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنا معائنہ ضرور کرائیں تاکہ یہ مرض ابتدائی ایام میں ہی پکڑا جائے اور اس کا علاج اور احتیاط بروقت شروع کر دی جائے تاکہ صحت اور تندرستی قائم رہے۔

تبصرے بند ہیں.