5 رکنی بینچ ہی مقدمہ سنے گا، انتخابات تاریخ کس نے دینی ہے کل فیصلہ دینگے : چیف جسٹس 

57

 

اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر لیے گئے از خوڈ نوٹس کیس کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا ہے جس کے بعد 5 رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھی ہوئی ہے ۔  آدھے گھنٹے کے وقفے 4 بجے سماعت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ کل ہر صورت سماعت مکمل کریں گے۔

 

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ کے 4 ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔  عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا ۔ آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی ۔ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے۔ کل ہر صورت میں سماعت کو مکمل کریں گے۔

 

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو کہا کہ آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟  ۔ علی ظفر نے کہا کہ  وزیر اعلی پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی ۔

 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

 

دوران سماعت علی ظفر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلی کے لیے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا۔

 

علی ظفر نے کہا کہ گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ کو حکم میں شامل ہونے سے پہلے پبلک ہونا غیر مناسب ہے، عدالتی احکامات پہلے ویب سائٹ پر آتے ہیں پھر پبلک ہوتے ہیں۔

 

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی، علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب نےاسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنرکوارسال کی۔

 

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔

 

سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہاہیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔

 

علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

 

خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے والے ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس مظہر علی نئے بینچ کا حصہ ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.