اکیس فروری اور پاکستان

155

ان دنوں کی بات ہے جب میں مشرقی پاکستان کے دارالحکومت میں ڈھاکہ کالج کا طالب علم تھا۔ 1968-69 سیاسی ہنگامہ خیز یوں کے دن تھے۔ شیخ مجیب الرحمان کا بڑے بیٹے شیخ کمال سے اچھی علیک سلیک تھی۔ وہ اکثر کالج کے لڑکوں کو احتجاجی جلوس میں لے کر جایا کرتا تھا۔ 21 فروری تھا۔ کلاسز ختم کروا دی گئی تھیں۔ میں گھر جانے کے لئے کالج سے نکل ہی رہا تھا کہ طلبہ کا بڑا ہجوم مرکزی دروازے کے باہر جمع تھا اور شیخ کمال ان کو ہدایات دے رہا تھا۔ اس کی نظر جیسے ہی ہم پر پڑی ہم اس کی جانب بڑھے۔ اس نے پوچھا جلوس میں چلو گے۔ حامی بھرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اسی جلوس میں ایک بنگالی طالب علم اسد پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا جس کے بعد محمد پور کے مشہور ایوب گیٹ کا نام اسد گیٹ رکھ دیا گیا تھا جو آج تک ہے۔ 21 فروری کو اس وقت صرف مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کا دن منایا جاتا تھا۔ 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے احتجاجی ریلی نکالی تھی کہ اردو کی جگہ بنگلہ کو پاکستان کی قومی زبان ہونا چاہئیے۔ پر تشدد جلوس کو قابو رکھنے کے لئیے پولیس نے گولی چلائی جس سے سات طالب علم ہلاک ہو گئے تھے۔ شروعات اس طرح ہوئی کہ پاکستان بننے کے بعد ہی دسمبر 1947 میں ہی مشرقی پاکستان میں ایک ریلی نکالی گئی تھی جو بنگلہ کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان کا قومی زبان بنانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ خواجہ ناظم الدین نے اس احتجاج کو روکنے کے لئیے طلبہ سے مذاکرات کئیے اور ان کے تقریباً تمام مطالبات منظور کر لئیے مگر شائد انہوں نے ہوم ورک نہیں کیا اور جب 1948 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ڈھاکہ کے دورے پر آئے تو ایک بھرے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت ہمارے ملک کو افرا تفری کی جانب دھکیلنا چاہتا ہے اس لئیے اس قسم کی سازشیں کروا رہا ہے۔ ان کی اس تقریر سے وہاں لوگوں میں بیچینی سی پھیل گئی۔ پھر جب قائد اعظم ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال میں طالب علموں سے خطاب کر رہے تھے تو ان سے خاص طور پر قومی زبان کے حوالے سے سوال کیا گیا جس پر جناح صاحب نے اپنا جواب دہرا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سوال کرنے
والوں میں شیخ مجیب الرحمان بھی تھا جو قیام پاکستان کی تحریک کے وقت کلکتہ میں مسلم اسٹوڈنٹس کا جنرل سکریٹری بھی تھا۔ اس نے اس مسلے کو اپنی سیاست کا محور بنا لیا اور یہی معاملہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بن گیا۔ اس وقت کی مسلم لیگ اور اس وقت کی پاکستان کی حکومت کی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد 1954 میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا صفایا ہو گیا۔ اس کے بعد زبان کا مسئلہ سنگین ہوتا چلا گیا- خواجہ ناظم الدین اور نور الامین وہاں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھال نہ سکے-جبکہ وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بھی شیخ مجیب ناراض ہو چکے تھے۔ شیخ مجیب ایک وفد کے ساتھ لیاقت علی خان سے ملے تو انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان کی سیاسی جماعت صرف مسلم لیگ ہوگی۔ مجیب نے اپنی کتاب میں اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ 1956 میں بنگلہ کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تھا – اس کے بعد یہ تنازعہ تقریباً ختم ہو چکا تھا اور اس کا تذکرہ عوامی لیگ نے بعد میں کبھی نہ کیا مگر 1952 میں ہلاک ہونے والے سات طلبہ کی یادگار کے طور پر ایک بڑا شہید مینار اور کئی چھوٹے شہید مینار بنا کر احتجاجی سیاست کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اور ہر سال 21 فروری کو ان شہید طلبہ کی یاد میں متشدد احتجاج کیا جانے لگا۔ یہ لوگ اپنی جائدادوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے نہ اپنے لوگوں پر تشدد کر سکتے تھے اس لئے ان کا نزلہ وہاں مقیم ان لوگوں پر گرتا تھا جو بھارت کے اقلیتی صوبوں سے ہجرت کر کے آئے تھے اور جن کی مادری زبان اردو تھی۔ ان کے گھر اور دکانیں جلائے جاتے تھے اور ان پر تشدد بھی ہوتا تھا۔ ایک بات قابل ذکر ہے۔ اس زمانے میں بنگالی بھی یہ کہا کرتے تھے۔ بھارت کا بھی یہی مؤقف تھا اور اب پاکستان کے اکثر دانشور بھی یہی راگ الا پتے ہیں کہ بنگالی اکثریت پر اردو زبان مسلط کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نسلی بنیادوں پر یا اکثریت کی بنیاد پر کسی ملک کی قومی زبان بنائی جاتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو بھارت کی زبان ہندی نہ ہوتی۔ وہاں کی بہت سی بڑی بڑی ریاستیں ایسی ہیں جہاں ہندی نہ بولی جاتی ہے اور نہ سمجھی جاتی ہے بلکہ ہندی بولنے والے اقلیت میں ہیں۔ پھر یہ کہ اردو مسلط کس نے کی؟ کیا قائد اعظم کی زبان اردو تھی؟ کیا پنجاب، سندھ، بلوچستان اور اس وقت کے سرحد کی زبان اردو تھی؟ تو مسلط کس نے کی؟ سب نے ایک ایسی زبان کو تسلیم کیا جو رابطے کی زبان تھی۔ ہر کوئی اسے سمجھ سکتا تھا۔ اگر اکثریت کی بنیاد پر قومی زبان کا فیصلہ ہو تو پھر آج یہ مطالبہ کرنا چاہئیے کہ پاکستان کی قومی زبان پنجابی ہو کیونکہ اکثریت تو پنجاب کی ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کی تحریک کو محور بنا کر اپنے سیاسی ایجنڈے کو تقویت دی گئی جس میں عوامی لیگ کامیاب ہو گئی۔ جب 1958 میں مارشل لگا تو غصہ صرف مشرقی پاکستان میں نہیں بلکہ مغربی پاکستان میں بھی تھا۔ اور ایوب حکومت کے خلاف تحریک چلی تو دونوں صوبوں میں یکساں چلی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اسی زبان کی تحریک کو وجہ بنا کر شہید مینار کو سیاسی محور بنایا۔ نفرتوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ایسی نفرت کہ جب علیحدگی کی تحریک زور پکڑی تو عوامی لیگ نے بھارتی دراندازوں کی مدد سے لاکھوں غیر بنگالیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا اور بعد میں غیر ملکی نامہ نگاروں کو ان بہاریوں کی لاشیں دکھا کر یہ کہا کہ یہ ان بنگالیوں کی لاشیں ہیں جنہیں پاکستان کی فوجوں نے مارا تھا۔ اس پر بعد میں روشنی ڈالوں گا۔ آج قومی زبان پر اپنی بات مرکوز رکھوں گا۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں کی حکومت نے یہ حکمت عملی بنائی کہ قومی زبان کے اس جھگڑے کو بین الاقوامی رنگ دے کر اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس نے بیرون ملک اپنے ہم وطنوں کے ذریعے اقوام متحدہ میں خطوط بھجوائے کہ 21 فروری کو قومی زبان کا دن قرار دیا جائے۔ جب کسی طرف سے اس کی مخالفت سامنے نہیں آئی تو اقوام متحدہ نے اس دن کو مادری زبان کا عالمی دن تسلیم کر لیا۔ مگر پس منظر کے طور پر مشرقی پاکستان میں زبان کی بنیاد پر طلبہ کی ہلاکت کا ذکر نمایاں ہے اور یہی بنگلہ دیش کی کامیابی ہے۔ پاکستان نے آج تک دنیا تو چھوڑئیے اپنے ملک کے عوام کو بھی یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی افواج نے بنگالیوں کا قتل عام نہیں کیا تھا اور یہ کہ اصل نسل کشی بنگالیوں کی نہیں بلکہ بہاریوں کی ہوئی تھی۔ کیونکہ یکم مارچ سے 25 تک فوج تو چھاؤنی میں بند تھی۔ اس دوران تو پورے مشرقی پاکستان میں کنٹرول عوامی لیگ کے ہاتھ میں تھا۔پھر جب آرمی آپریشن شروع ہوا تو سارے باغی ڈھاکہ سے انڈیا۔ بھاگ رہے تھے اور جاتے جاتے مختلف شہروں میں غیر بنگالیوں کا قتل عام کرتے جا رہے تھے۔ پاکستان کی فوجیں تو کئی ماہ بعد جب کسی شہر پہنچتے تو وہاں انہیں کوئی بنگالی باغی نہیں ملتا بلکہ غیر بنگالیوں کی لاشیں ہی ملتیں۔

تبصرے بند ہیں.