پاکستان میں سیاسی جنگ بندی کی ضرورت

126

پاکستان شدید بحران کا شکار ہے۔ سیاسی بحران، معاشی بحران، امن و امان کا بحران اور اخلاقیات کا بحران۔ ان تمام بحرانوں کی موجودگی میں دہشت گردی بھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج کے دور میں سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر کسی ملک میں سیاسی رسہ کشی عروج پر ہو جائے اور تمام فریقین اخلاقیات سے بھی مبرا ہو جائیں تو بظاہر تباہی ہی اس کا مقدر نظر آتی ہے۔ کہا جائے تو یہ بالکل غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے رہنما قائدین سمیت اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ ہر کسی کو بس اسی بات کی فکر ہے کہ وہ کس طرح مخالف کو پچھاڑ دے چاہے اسے کوئی بھی حربہ استعمال کیوں نہ کرنا پڑ جائے۔ کوئی حکومت کو گرانے کی فکر میں ہے تو کوئی اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح دوسرے فریق کو چت کر کے اسے میدان سے نکال باہر کیا جائے۔ کسی سیاسی جماعت کو آئین کے تقدس کا خیال ہے اور نہ اس بات کا احساس ہے کہ بیرون ملک پاکستان کے خلاف کیا کیا منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ اگر دہشت گردی ہو رہی ہے تو کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ اس کا سد باب کس طرح سے ہو اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کے مستقبل کو کس طرح محفوظ کیا جائے۔ سیلاب سے متاثرین کی اب تک بحالی نہیں ہو سکی ہے اور اب تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے نتیجے میں صاف نظر آ رہا ہے کہ مہنگائی مزید آسمان کو چھونے کو ہے۔ ہر شے پر ٹیکس بڑھے گا۔ عام لوگوں کا زندہ رہنا اجیرن ہو جائے گا۔ ان سارے مسائل سے کیسے نکلا جائے؟ اس کا حل نکالنا نہ کسی ایک حکومت یا کسی ایک جماعت کے لیے ممکن ہے۔ یہ ایک طرح سے ایمرجنسی کی حالت ہے اور لگتا ہے کہ ملک اس وقت شدید حالت جنگ میں گھر چکا ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے نہ صرف حکومتی اتحاد کو بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔ صرف حکومت اور اپوزیشن کو ہی نہیں بلکہ اداروں اور سول سوسائٹی کو بھی آگے آنا ہو گا۔
یہ جو لفظوں کی، بد زبانیوں کی، سخت لہجوں اور رکیک الزامات کی جنگ ہے وہ شرمناک حد تک آگے بڑھ چکی ہے۔ جواب در جواب اقدامات سے فضا مکدر ہو چکی ہے۔ سیاست یا مخالفت نہیں بلکہ ذاتی دشمنیاں بن چکی ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔ ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں۔ جب
تحریک انصاف کی حکومت تھی تو سرکاری افسران سمیت کئی بزرگ رہنماو¿ں کی تذلیل کی گئی۔ معروف صحافی جو اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر تھے کو بھونڈے مقدمے میں پھنسا کر ہتھکڑی لگا کر جیل لے جایا گیا۔ رانا ثنا اللہ پر منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار کر کے لاک اپ میں رکھا گیا۔ میاں جاوید لطیف کو گرفتار کر کے راتوں کو ایسے نامعلوم مقامات پر لے جایا گیا جن کے بارے میں خود پولیس والوں کو معلوم نہ ہو سکا۔ جب حکومت تبدیل ہوئی تو یہ حرکتیں تحریک انصاف کے ساتھ دہرائی گئیں۔ اعظم سواتی کو کس طرح گھر کے اندر گھس کر نہ صرف لے جایا گیا بلکہ انہیں برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی اہلیہ کے ساتھ ان کی غیر اخلاقی ویڈیو بنا کر ان کی بیٹی کو بھیجی گئی۔ صحافی حماد کو گرفتار کر کے ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا یا گیا ہے۔ ارشد شریف پر کئی شہروں میں غداری کے مقدمات بنوا کر مجبور کیا گیا کہ وہ بیرون ملک چکے جائیں۔ یہیں پر ختم نہیں ہوا انہیں شہید بھی کر دیا گیا۔ اب فواد چودھری اور شیخ رشید کی باری آئی۔ اس سے پہلے شہباز گل کے ساتھ افسوسناک رویہ اپنایا گیا۔ آخر اس طرح کب تک ہوتا رہے گا؟ کیا یہ روایت بن جائے گی کہ جو حکومت بھی آئے گی وہ پہلے تو جانے والی حکومت پر سارے الزامات عائد کرے گی اور پھر اہم مخالفین کو گرفتار صرف ان کو رسوا کر کے راستے سے ہٹا دیا کرے گی؟
اس وقت ملک کے مسائل تو بے شمار ہیں مگر بہت اہم مندرجہ ذیل ہیں:
سیاست میں شرافت اور برداشت کا فقدان
بد ترین معیشت کا سامنا
مستقبل کی ناکارہ منصوبہ بندی
بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور جرائم
ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان راستہ تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی توقیر قائم کی جائے۔ اور حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں۔ اس کے لیے تحریک انصاف کو پارلیمان میں واپس لایا جائے۔ ان کے جو استعفے منظور کیے گئے ہیں ان کو منسوخ کیا جائے۔ تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ اسمبلی میں واپس آئے۔ مذاکرات کے لیے کوئی شرط نہ رکھے بلکہ انتخابات کی منصوبہ بندی سمیت معیشت، دہشت گردی اور جرائم جیسے اہم معاملات پر بیٹھ کر بات کرے۔ ریاست کے دوسرے اداروں کو اور سول سوسائٹی کو بھی آن بورڈ لیا جائے اور پارلیمنٹ سے باہر بھی ایک کانفرنس کر کے مسلے کا حل نکالا جائے۔ گرفتاریاں فی الفور بند کی جائیں۔ سنگین نوعیت کے مقدمات کو التوا میں رکھا جائے۔ حکومت وقت کو اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ جن صوبوں کو تحلیل کر دیا گیا ہے ان میں آئین کے مطابق انتخابات کرانا ہوں گے ورنہ آئین ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔
سیاسی ہیجان انگیزی اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال پر پابندی صرف اس طرح لگائی جا سکتی ہے کہ فی الفور سیاسی جنگ بندی کی جائے۔ ضابطہ اخلاق متعین کیا جائے۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اگر اپنے حدود کا تعین کر کے اپنے دائرے میں رہنے کا عزم کر لیں تو وہ سیاست دانوں کے مابین افہام و تفہیم میں غیر جانبدارانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دونوں سیاسی فریقوں کو اس بلیم گیم سے نکلنا ہو گا کہ دہشت گردی کے اصل ذمہ دار تم ہو۔ یا معیشت تباہ کرنے میں تمہارا ہاتھ ہے۔ دیکھا جائے تو 9/11 کے بعد ہر حکومت دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دہشت گردی بھی ہر حکومت کے دور میں اور ہر بڑے شہر میں ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح مہنگائی اگر میاں نواز شریف کے دور حکومت میں شروع ہوئی تو عمران خان کی حکومت میں بھی بڑھتی رہی اور یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ان کی حکومت قائم بھی رہتی تو یہ مزید نہ بڑھتی۔ یہ اسی طرح بڑھتی جس طرح اب ہے۔ کوئی بھی حکومت ہوتی یہی کچھ ہوتا۔ ایک تو اس کی وجہ افغان جنگ رہی پھر پاکستان میں دہشت گردی اور اب روس اور یوکرین جنگ نے تباہی پھیر دی۔ پوری دنیا بشمول امریکہ اور برطانیہ شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں۔ امریکہ میں ایک درجن انڈے کی قیمت ایک ڈالر ہوا کرتی تھی اب پانچ ڈالر سے زیادہ ہے۔ رئیل سٹیٹ کے سود کی رقم روز بروز بڑھ رہی ہے۔ نظام حکومت چلانے کے لیے بائیڈن حکومت کو اضافی رقم چاہیے۔ مگر سپیکر اور ریپبلکن اس کے لیے تیار نہیں۔ معاملہ ڈیڈ لاک کی طرف جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ انتظامیہ شٹ ڈاو¿ن ہو جائے مگر پھر بھی فریقین مذاکرات کر رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف اور اتحادی حکومت نے شدید غلطیاں کی ہیں جن سے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عوام اب فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ سری لنکا کے علاوہ مصر اور بنگلہ دیش تک کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کو اس نزع کے عالم سے نکالنے کے لیے سیاسی ایمرجنسی لگائی جائے اور یہ صرف سیاسی جنگ بندی کرنے ہی سے ممکن ہو سکے گا۔ ایسی جنگ بندی کہ کوئی اس کی خلاف ورزی نہ کر سکے۔

تبصرے بند ہیں.