دہشت گردی ،معاشی،سیاسی بحران ذمہ دار کون؟

23

پشاور دھماکے کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت بالعموم اور عسکری قیادت بالخصوص تحریک طالبان کے ساتھ نمٹنے کے لیے ایک نئی پالیسی پر غور کر رہی ہے۔ اس وقت کے پی کے پولیس دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور پشاور دھماکے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے جلد کسی ایسی پالیسی کا اعلان متوقع ہے جس میں دہشت گردوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ ادھر کے پی کے کی نگراں حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ صوبے میں ٹارگٹ آپریشن کی طرف جائے گی۔ ذرائع کے مطابق کے پی کے میں دہشت گردی کے پیش نظر سکیورٹی اجلاس بھی بلایا جائے گا جس میں کور کمانڈر کے علاوہ نگران حکومت کی قیادت بھی شریک ہو گی اور صوبے میں ٹارگٹ آپریشن کر کے صوبے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جہاں نئی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے، وہاں یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کا ذمہ دار کون ہے؟ اور صوبے کے اداروں کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے وسائل کی کمی کا سامنا بھی کیوں ہے۔ شہباز شریف نے گزشتہ دنوں ایک سوال اٹھایا تھا کے پی کے میں 417 ارب دیے گئے پھر بھی ادارے بے بس کیوں ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے جس پر انہوں نے کہا تھا کہ ان 417 ررب کا آڈٹ کیا جانا چاہئے تاکہ پتہ چلے کہ پیسہ کہاں گیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نے کیا کیا ہے۔ 2010 سے اتنا پیسہ کے پی کے کو دیا گیا تو آخر گیا کہاں؟ تحریک انصاف کی حکومت بھی رہی ہے اور آج وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہے۔ شہباز شریف صوبے میں دہشت گردی کی واپسی پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ شہباز شریف اپنے خطاب میں سارا الزام عمران خان پر ڈالتے دکھائی دیے۔ ساتھ یہ بتاتے چلیں کہ کے پی کے کے آئی جی نے ایک نجی
چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے صوبے میں سی سی ٹی وی پروجیکٹ ہی نہیں ہے، اس لیے ایک دن کے کیمرے سے مدد کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خود کش بمبار کے اعضا کے نمونے فرانزک لیب کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔ یہ نمانے بھی دوسرے صوبہ میں اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ پی کے پاس یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ یہ ہمارے لیے المیہ ہے۔ کے پی کے گزشتہ پندرہ سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، سب سے زیادہ کے پی کے دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے۔ اگر آج ایک بار پھر یہ بحث چل رہی ہے کہ سی ٹی ڈی کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں ہے، یہاں سامان نہیں ہے، ہتھیار نہیں ہیں، فرانزک لیب تک موجود نہیں ہے۔ جب یہ سارے معاملات سامنے آتے ہیں تو انسان سوچتا ہے کہ اتنا پیسا واقعی ضائع ہی گیا کہ آپ جو کے پی کے کو سکیورٹی کے لیے دیا جاتا رہا ہے کیا زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ پشاور دھماکے کے بعد مسلسل یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت اور سابق عسکری قیادت نے کس مقصد کے تحت کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔ اس حوالے سے نہ صرف عمران خان پر تنقید ہوتی ہے بلکہ خفیہ ایجنسی کے سابق ڈی جی کو بھی اس تنقید کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے گزشتہ دنوں عمران خان نے ٹی وی چینل پر آ کر نہ صرف اپنا دفاع کیا بلکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا بھی دفاع کیا۔ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے پر عمران خان نے خدا کا شکر کیوں ادا کیا تھا؟ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ سے برسر اقتدار آنے سے پاکستان میں تحریک طالبان زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور اس نے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے زیادہ تیزی سے شروع کر دیے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان طالبان کے افغانستان میں حکومت قائم ہونے پر یہ دعویٰ کیوں کرتے رہے کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اور پاکستان کے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی کابل کا دورہ کیوں کیا تھا؟ جس میں وہ یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے ”ایوری تھنگ ول بی اوکے“۔
بات یہ ہے کہ عمران خان سیاسی سطح پر اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی عسکری سطح پر افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے پر کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات سے متعلق متحرک تھے مگر عمران خان دہشت گردی سے متعلق جو بیان دے رہے ہیں جس میں وہ صاف بتاتے ہیں کہ میری کابینہ کے بہت سے لوگوں نے خدشات ظاہر کیے تھے اس کے باوجود انہوں نے مذاکرات کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مالاکنڈ میں طالبان کی واپسی پر احتجاج ہوتے تھے مگر انہیں سمجھ نہیں آئی۔ میں سوچتی ہوں آپ اتنے بیوقوف کیسے ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے بہت سے ایسے فیصلوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ ملک کے حالات بہت خراب ہیں، ہر چیز سمجھ سے باہر ہے۔ افسوس ہوتا ہے کیونکہ ملک میں اس وقت ہر چیز میں خرابی ہی خرابی دکھائی دے رہی ہے مگر پھر بھی امید کی ایک ہلکی سی کرن ہے۔ وہ یہ کہ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان تشریف لا چکا ہے اور بہت امید دکھائی دے رہی ہے کہ 9 فروری تک ملاقات طے پا جائیں گے۔ افسوس ہے کہ آئی ایم ایف نے اس وقت پاکستان کے ساتھ بہت بُرا رویہ اپنا رکھا ہے، پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری سیاستدانوں پر ہے۔ میں سمجھتی ہوں ہم اس وقت کامیاب ہوں گے جب اپنی شاہانہ زندگی ختم کریں گے۔ وی آئی پی کلچر سے ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور افسران کو نکلنا ہو گا۔ اب شہباز شریف بھی کہتے ہیں کہ تمام تر سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا ہو جانا چاہیے میں بھی سمجھتی ہوں کہ ملک کی تمام تر سیاسی قیادت وفادار ہے اور اس کو ملکی بہتری کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.