از خواب گراں خیز

23

کسی جنگل میں ایک ”خرگوش“ کی اسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔ اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔
ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑانے کے لیے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔
دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔ کمیٹی نے ریچھ سے غلط
دعویٰ دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔
کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔
ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چرا کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا: میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے در اصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔ یہی حال ہمارے ملک کا ہے اور یہی ہمارے خود ساختہ آقاؤں کا ہے۔ یہی حال ہمارے وزیروں مشیروں کا ہے۔ یہی حال ہمارے بیورو کریٹوں کا ہے۔ یہی حال ہماری اشرافیہ کا ہے۔ یہی حال ہمارے نام نہاد مذہبی پیشواو¿ں کا ہے۔ یہی عکاسی کئی سال پہلے فاروق قیصر عرف انکل سرگم کی دل کو چھوتی ہوئی ایک مشہور نظم ”اللہ میاں “ جسے ان کے ٹی پروگرام میں ان کا مشہور کردار ”رولا “ سنایا کرتا تھا میں کی گئی تھی۔ یہ نظم آج بھی حسبِ حال ہے۔
میرے پیارے اللہ میاں…. دل میرا حیران ہے، میرے گھر میں فاقہ ہے، اس کے گھر میں نان ہے، میں بھی پاکستان ہوں، اور وہ بھی پاکستان ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. لیڈرکتنے نیک ہیں، ہم کو دیں وہ صبر کا پھل، خود وہ کھاتے کیک ہیں…. میرے پیارے اللہ میاں…. یہ کیسا نظام ہے؟ فلموں میںآزادی ہے، ٹی وی پر اسلام ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. سوچ کے دل گھبراتا ہے، بند ڈبوں میں خالص کھانا، ان کا کتا کھاتا ہے، میرا بچہ روتے روتے، بھوکا ہی سو جاتا ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. دو طبقوں میں بٹتی جائے، ایسی اپنی سیرت ہے، ان کی چھت پر ڈش انٹینا، میرے گھر بصیرت ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. میری آنکھ کیوں چھوٹی ہے؟ اس کی آنکھ میں کوٹھی ہے، میری آنکھ میں روٹی ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. تیرے راز بھی گہرے ہیں، ان کے روزے سحری والے، میرے آٹھ پہرے ہیں…. میرے پیارے اللہ میاں…. روزہ کھولنے کی ان کو، دعوت ملے سرکاری ہے، میرا بچہ روزہ رکھ کر، ڈھونڈتا پھرے افطاری ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. یہ کیسا وٹہ سٹہ ہے؟ این ٹی ایم کا سر ہے ننگا، پی ٹی وی پہ ڈوپٹہ ہے، ( این ٹی ایم پہلا پرائیویٹ چینل تھا)…. میرے پیارے اللہ میاں…. بادل مینہ برسائے گا، اس کا گھر دھل جائے گا، میرا گھر بہہ جائے گا…. میرے پیارے اللہ میاں…. چاند کی ویڈیو فلمیں دیکھ کر، اس کا بچہ سوتا ہے، میرا بچہ روٹی سمجھ کر، چاند کو دیکھ کے روتا ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. یہ کیسی بدنظمی ہے، میرا پیٹ تو خالی ہے، اس کو کیوں بدہضمی ہے…. میرے پیارے اللہ میاں…. یہ کیسی ترقی ہے؟ ان کی قبریں تک ہیں پکی، میری بستی کچی ہے….

تبصرے بند ہیں.