کپتان والی مرغیاں۔۔وہ توکپتان سے بھی دونہیں سوقدم آگے نکلی ہیں۔آج کل ہاتھ ہی نہیں آرہی ہیں۔شائدمرغیوں کی اسی بدمعاشی کوسامنے رکھتے ہوئے خان نے ہرچھوٹے بڑے کومرغیاں پالنے کامشورہ دیاتھا،اس وقت اس مشورے پرعمل کیاجاتاتوآج مرغی جی کے یہ نخرے نہ اٹھانا پڑتے۔ادھرپانی میں گوندھاجانے والاآٹااسے بھی آج کل کوکین کی طرح کوئی ایسانشہ چڑھاہواہے کہ اس کے نازنخرے بھی کم نہیں ہو رہے۔کپتان کی محبت کے باعث مرغیوں اورانڈوں کوتوہم نے پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل کرلیاتھا لیکن اب اشیائے ضروریہ کی روزانہ کی بنیادپران چھلانگ لگاتی قیمتوں کودیکھ کریوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے آٹا،چینی،گھی،چاول اور دال سمیت ان دیگرضروری اشیاء کاتعلق بھی کہیں تحریک انصاف سے ہو۔ کاش کہ اعظم سواتی اور شہبازگل کی طرح آٹا، چینی، گھی، چاول،دال،مرغی اورانڈوں کا سچ میں کپتان اورپی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہوتا۔ پھر ہم دیکھتے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ان کی یہ قیمتیں کیسے چھلانگیں مارتیں۔؟ پی ڈی ایم سے یادآیاماضی قریب میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جب اسی طرح بے لگام ہوتیں تومولاناکی پارٹی سمیت پی ڈی ایم میں شامل تقریباًاکثربڑی سیاسی جماعتوں وپارٹیوں نے مہنگائی کے خلاف ایک نہیں کئی تاریخی مارچ اورلانگ مارچ کئے تھے۔اب ملک میں پی ڈی ایم کی اپنی حکومت ہے۔مارچ اورلانگ مارچ پرکوئی پابندی ہے اورنہ ہی کوئی روک ٹوک۔جس طرح مولاناکی امامت میں ن لیگ،پیپلزپارٹی اوردیگرپارٹیوں اورلیڈروں نے مہنگائی وجمہوریت کے لئے مارچوں پرمارچ کئے اسی طرح کے ایک دومارچ اگراب مہنگائی صرف مہنگائی کے خلاف کئے جائیں توجس طرح ان مارچوں کی وجہ سے عمران کی حکومت سے عوام کی جان چھوٹی اسی طرح اب اس ملک سے مہنگائی نامی اس آفت اوربیماری سے بھی عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔لیکن اقتدارکے اس موسم میں مولانااوران کے سیاسی مریدوں کے لئے مارچ اورلانگ مارچ یہ ممکن نہیں کیونکہ اس ملک کی یہ روایت اورہماری یہ عادت رہی ہے کہ یہاں مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خلاف مارچ، لانگ مارچ،جلسے،جلوس،ہڑتال اورمظاہرے وہی لوگ کرتے ہیں جواقتدارکی گلی اورمحل سے باہر اور دور ہوتے ہیں۔مطلب جولوگ سیاسی طور پر بیروزگار ہوں۔ مولانااوران کے سیاسی مریدبھی ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے باعث جب تک بیروزگارتھے تووہ مہنگائی کے خلاف نہ صرف مارچ ولانگ مارچ بلکہ جلسے،جلوس،ہڑتال اورمظاہرے بھی کیاکرتے تھے لیکن جب سے نئی حکومت میں امام ومقتدیوں کونوکریاں ملی ہیں تب سے آج تک ان کی زبان سے کسی نے مہنگائی کے خلاف کوئی خاص وعظ وتقریر نہیں سنی۔ماناکہ مولانافضل الرحمن،عمران خان اوربلاول بھٹوسے لیکر وزیراعظم شہبازشریف تک تمام لیڈروں اور سیاستدانوں کا مقصد،منزل اورمسئلہ اقتدار،حکومت اورکرسی ہے لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ اس ملک کے بائیس کروڑعوام کامسئلہ نہ اقتدارہے نہ حکومت اورنہ ہی کوئی کرسی۔عوام کاسب سے بڑامسئلہ ہی مہنگائی، غربت اوربیروزگاری ہے۔یہ لیڈر اور سیاستدان ہمارے جیسے عام عوام کے نہ کوئی مامے ہیں اور نہ کوئی چاچے کہ ان کی آنے یاجانے کے لئے لوگ دعائیں کریں گے۔لوگ ان سیاستدانوں ولیڈروں کو دعااوربددعادینے کے لئے اپنے ہاتھ تب اٹھاتے ہیں جب یہ ان غریبوں کوپیٹ بھرکرکھاناکھلاتے ہیں یاپھرمہنگائی کے ہاتھوں مارکردیوارسے لگادیتے ہیں۔کپتان سے بھی توکسی کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔اس ملک کے لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ کپتان کوپسندکرتے تھے لیکن جب اسی کپتان نے آٹا،چینی،گھی اوردالیں مہنگا کر کے عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی تو پھر کپتان کوپسندکرنے والے انہی غریبوں کے ہاتھ بھی کپتان کوبددعائیں دینے کے لئے اٹھے۔لوگ محض تین ساڑھے تین سال بعدعمرانی حکومت سے نجات کی دعائیں صرف اس لئے مانگ رہے تھے کہ کپتان کی حکمرانی میں لوگوں کاجینامشکل ہو گیا تھا۔ کپتان کواپنے اقتداراورکرسی کی فکر توتھی لیکن سات سوسے سترہ سوروپے تک پہنچنے والے آٹے کے بیس کلوتھیلے کاکوئی خیال نہیں تھا۔ کپتان کواپنے بارے میں عوام سے میٹھی میٹھی باتیں سننے کا شوق توتھالیکن عوام کومٹھاس دینے والی چینی کی کڑواہٹ تک پہنچنے کاکوئی احساس نہیں تھا۔ کپتان ہربات میں تڑکاتولگاتے تھے لیکن غریبوں کے تڑکے والی گھی کے ساتھ اس کی حکومت میں جوکچھ ہواوہ ایک غریب ہی جانتاہے۔مرتے کیانہ کرتے کے مصداق غریب پھرعمرانی حکومت سے نجات کی دعائیں نہ مانگتے تو اور کیا مانگتے۔؟ مولانااوران کے مریدبھی کپتان کے نقش قدم پرچل نکلے ہیں اللہ خیرکرے آگے ان کاکیاانجام ہو گا۔؟ مولاناسے لیکرمریدوں تک اقتداراورکرسی کی فکرسب کوہے لیکن غریب کیسے اورکس طرح جی رہے ہیں یہ خیال اورفکر کسی کونہیں۔جب سے ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے تب سے مہنگائی کا طوفان تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا۔ آٹا، چینی، چاول، گھی سمیت اشیائے ضروریہ کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہوامیں اڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔کسی چیزمیں کوئی استحکام نہیں۔پانچ چھ مہینے پہلے آٹے کابیس کلوتھیلاجوسترہ اٹھارہ سوروپے میں بکتاتھااب اس کی قیمت محض پانچ چھ مہینوں میں اٹھائیس سوتک پہنچ گئی ہے۔دوسوبیس سے دوسوپچاس روپے میں ایک کلوملنے والی مرغی نے چنددنوں میں چار سو کا ہندسہ بھی کراس کردیاہے اوراگریہی حالت رہی تو شائد کہ ہزارکاہندسہ بھی عبورکرنااس کے لئے کوئی مشکل نہ ہو۔جہاں مہنگائی کایہ عالم اورلوگوں کوآٹا،چینی،دال،گھی اورچاول کے لالے پڑے ہوں وہاں لوگوں کے ہاتھ حکمرانوں سے نجات کی دعائیں مانگنے کے لئے نہیں اٹھیں گے تواورکس چیز کے لئے پھر اٹھیں گے۔؟ماناکہ پی ڈی ایم والوں کاامام کامل پیراورمرشدہوگا،مولاناجی کی دعاؤں کااثر بھی بہت ہوگالیکن ایک بات یادرکھیں جب بائیس کروڑہاتھ بددعاکے لئے اٹھتے ہیں توپھران کے سامنے کسی سیاسی پیراورمرشدکی دعاکاکوئی اثرباقی نہیں رہتا۔ہم نے ایک نہیں کئی سیاسی مرشدوں کومظلوم عوام کی بددعاؤں کے سامنے ڈھیرہوتے دیکھاہے۔اس سے پہلے کہ غریبوں کی آہ اوربددعاسے پی ڈی ایم حکومت کی بھی الٹی گنتی شروع ہوجائے مرشداورمریددونوں کواقتدارکے لئے دعائیں مانگنے کے ساتھ عوام کومہنگائی سے فوری ریلیف دینے کے لئے دواؤں کاسلسلہ بھی شروع کر دینا چاہئے۔مولانااورمریداگرمہنگائی کے خلاف اورکچھ نہیں کرسکتے کم ازکم سرکارکی سرپرستی میں ایک مارچ توکردیں تاکہ پتہ چلے کہ پی ڈی ایم والے آج بھی مہنگائی کے خلاف ہیں اوریہ ایک تاریخی مارچ ہوگاکیونکہ اس میں صرف مولانااورمریدہی نہیں بلکہ 22کروڑعوام بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیں گے۔ نہیں تومہنگائی کایہ ہارکل کولوگوں نے کسی کپتان اورکھلاڑی نہیں مولانااوران کے مریدوں کے گلے میں ہی ڈالناہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.