انصاف سے زیادہ وار کرنے پر توجہ

20

انصاف یقینی بنانے میں آزادانہ اور شفاف تحقیقات اہم کردار ادا کرتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف سے زیادہ جس سے نفرت ہو اُس پر وارکرنے اور ملوث کرانے پرنہ صرف توجہ دی جاتی ہے بلکہ سزادلانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اِس دوران دباؤ اور دولت کے بے دریغ استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جاتا آزادانہ و شفاف تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنے کا ہی نتیجہ ہے کہ جُرم میں ملوث لوگ یا تو صاف بچ نکلتے ہیں یاپھر اُنھیں کیے سے بہت کم سزا ملتی ہے دور کیوں جائیں بے نظیر بھٹو جب وزیرِ اعظم تھیں تو اُن کا سگابھائی کراچی کی ایک اہم شاہراہ پردن دیہاڑے مار دیا گیا لیکن ذمہ داران کا آج تک تعین نہیں ہوسکا بعدمیں بہن بھی بھرے ہجوم کے درمیان جان سے چلی گئیں لیکن مرضی کے نتائج لینے کی خواہش ہی دراصل ابھی تک ملزمان تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے بیان بازی کافی ہوئی لیکن انصاف حاصل کرنے سے زیادہ توجہ سیاسی فوائد بٹورنے پر رہی ستم ظریفی تویہ ہے کہ پے درپے نقصان اُٹھانے کے باوجودآج بھی ملک کی سیاسی قیادت پرانی روش پر گامزن ہے اوراُس کے نزدیک انصاف سے زیادہ مخالف پر وار کرنااہم ہے من پسندنتائج حاصل کرنے کے لیے اِداروں کی ساکھ سے کھیلنے کوبھی جائز تصورکیا جانے لگاہے۔
گزشتہ برس تین نومبر کوعمران خان پر وزیرِآباد میں حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوئے اور ایک کارکن جان سے گیامگر ڈی پی اوغضنفر گیلانی کی طرف سے کیے گئے سخت ترین حفاظتی انتظامات کی بدولت حملہ آورکے علاوہ کچھ مشتبہ افراد کو موقع سے حراست میں لیا گیا بلکہ ایسے انتظامات کیے گئے جس سے مزیدخرابی نہ ہوئی کنٹینر پر سوار دھرنا دینے پر بضدبپھرے رہنماؤں سے بات چیت کرنااور موقع سے جانے پرراضی کرنے جیسے مراحل ہی آسان نہ تھے بلکہ ہزاروں مشتعل کارکنوں کو جلاؤ گھراؤ اور توڑپھوڑ کرنے سے بازرہنے پربھی رضامند کیا کیونکہ ماضی میں ایسے کسی واقعہ کے بعد کارکنوں کا سخت ردِعمل اور املاک کابے دریغ نقصان دیکھنے میں آتا رہا وزیرِ آباد حملے کے بعد مزیدناخوشگوارواقعات کو روکنا پولیس سربراہ کی پیشہ وارانہ مہارت اور بہتر حکمتِ عملی کی بدولت ممکن ہوامگرآزادانہ اور شفاف تحقیقات سے روکنے اور پی ٹی آئی قیادت کی ایماپرجن سے اُسے شدید نفرت ہے کے خلاف اندراجِ مقدمہ و گناہگار قرار دینے سے انکاراب پولیس کی بدنامی کا موجب بنتاجارہا ہے حالانکہ ڈی پی او کے ماتحت اکثر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ علی محسن کاظمی کے بعدیہ ایسا اچھا آفیسر آیا ہے جوانصاف کے لیے ہر حدتک چلاجاتا ہے گھنٹوں تفتیش سے بھی نہیں اُکتاتا اسی طرح ایس پی انویسٹی گیشن مزمل حسین بھی سوفیصد ایماندار اور میرٹ پسند شخص ہے پھر بھی پی ٹی آئی قیادت اگر مطمئن نہیں تواِس رویے پرحیرت کا اظہارکرنے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔
پی ٹی آئی کے لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ پولیس نے جس بندے کو گرفتار کیااُس کی تھانہ میں سوال و جواب کی ویڈیو کیوں بنائی اوریہ ساراعمل اِتنا مہذب کیوں رہانیزویڈیو اتنی جلدی صحافیوں کے ہاتھ کیسے لگی؟ایسے سوالات پختہ ذہن کے نہیں۔ کوئی معمولی سا بھی جُرم سرزد ہو تو گرفتار ہونے والوں سے فوری
طورپر ابتدائی پوچھ تاچھ کر لی جاتی ہے یہ دنیابھر میں ہرجگہ پولیس کی ایک عام روٹین ہے مگر عمران خان نہ صرف ملک کے وزیرِ اعظم رہ چکے بلکہ اب بھی تحریک انصاف کے سربراہ ہیں اِس لیے پولیس نے سرعت کامظاہرہ کیا تاکہ اصل سچ جان سکے ابتدائی بیان کی ریکارڈنگ کا مقصد حکامِ بالا کوتازہ ترین معلومات سے باخبررکھنا تھاکیونکہ اخبار یا چینل کاکوئی نمائندہ کچھ پوچھے تو بڑے صاحب کے پاس کچھ بتانے کو ہو یہیں سے ہی کہیں ویڈیو غیر محفوظ ہاتھوں میں گئی (بڑے صاحب کے بارے معلوم ہوا ہے کہ لمبی رخصت پر چلے گئے ہیں ایک غیر مصدقہ یہ اطلاع بھی ہے کہ بیرونِ ملک جاچکے ہیں اور دوباہ گجرات آنے پر آمادہ نہیں) دوسرا یہ کہ اکثر ملزمان پولیس کی حراست میں دیئے اپنے بیان سے عدالتوں میں جا کر منحرف ہوجاتے ہیں اور موقف اختیار کرتے ہیں کہ پولیس نے تشدد سے بیان لیاہے عدالتیں بھی پولیس حراست میں دیئے بیان سے زیادہ عدالت میں دیئے بیان کو اہمیت دیتی ہیں اب اگر زیرِ حراست ملزم کو زمین پر گراکر مارپیٹ کرتے ہوئے بیان لیا جاتا اور یہ ویڈیو کسی صحافی کے ذریعے سامنے آتی تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں پولیس کے بارے کیسا تاثر بنتا اوراُسے کیسے ردِ عمل کا سامنا ہوتانیز عدالت میں بیان کی کیا حیثیت رہ جاتی؟ گجرات پولیس نے تو ابتدائی پوچھ تاچھ کے بعد یہ ملزم بھی سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا تھاپھر بھی ناقابل فہم الزام تراشی جاری ہے یہ بات تحریکِ انصاف کی قیادت کو کون سمجھائے وہاں توعقل و دلیل سے زیادہ دھونس کی پالیسی رائج ہے فواد چودھری کا سارا خاندان اُسے اوراُس کی جماعت کوکب کا چھوڑکر الگ ہوچکااِسے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا تجربہ ہے جو اپنی نشست جیتنے کے چکر میں ابھی تک جماعت سے چپکا بیٹھاہے جونہی مناسب دعوت ملی یہ بھی الگ ہونے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا۔
تحریکِ انصاف کو شکوہ ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام بنانے میں عسکری قیادت نے اپنے رعب ودبدبے کاا ستعمال نہیں کیااگر کیا ہوتا تودرجن بھر مختلف الخیال جماعتیں ہر گز یکجا نہ ہوتیں اور نہ ہی حکومت کی اتحادی جماعتیں الگ ہوتیں مگر ایسا شکوہ کرتے ہوئے یہ کیوں بھلا دیا جاتا ہے کہ ممبرانِ پارلیمنٹ کووزیرِ اعظم وقت ہی نہیں دیتے تھے اور زیادہ وقت پاکستان سے زیادہ خودکو ایک عالمی رہنماکے طورپرمنوانے کی تگ ودو میں رہے یہ بے نیازی اور بے رُخی بددلی پھیلاتی گئی اوراتحادی ممبرانِ پارلیمنٹ نے حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا حالات زیادہ خراب ہوتے دیکھ کر راجہ ریاض بھی حکومتی کشتی سے چھلانگ لگا گئے اِس واضح نُکتے کی عمران خان یا اُن کے ہمرکاب رفیقان کو سمجھ نہیں آرہی اور اُن کی آجاکر تان اسی نُکتے پر ٹوٹتی ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام بنانے میں ساتھ نہ دینے کی سزا کے طورپر اہم عسکری حکام کے خلاف حملے کا اندراجِ مقدمہ ہو اور گرفتاری عمل میں لائی جائے ایسے مطالبات سے پی ٹی آئی قیادت کی ذہنی سطح بارے اچھا تاثر نہیں بن رہا۔
عسکری قیادت کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اِس وقت کئی لابیاں متحرک ہیں یہ لابیاں وارکرنے کے لیے موقع کی تاک میں رہتی ہیں اِ ن لابیوں نے فاٹا اور بلوچستان میں کئی اذہان گمراہ کر لیے ہیں جن کے شب وروزپاک فوج پر الزام تراشی میں گزرتے ہیں پاک فوج کوبدنام کرنے کی مُہم کے تحت بھارت نے عا لمی اخبارات میں بدمعاش فوج کا عنوان دیکر اشتہارات شائع کرائے اورممبئی حملوں کے پس منظر میں نوازشریف کے بیان کوکلبھوش کیس کی سماعت کے دوران عالمی عدالتِ انصاف میں بطور ثبوت پیش کیاآصف زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرچکے پاک وطن میں رہ کر اغیارکے اشارہ ابروپر پاک فوج کے خلاف نعرے لگانے کاسلسلہ تواتر سے جاری ہے اب پی ٹی آئی بھی اسی روش پر گامزن ہے شاید اُسے کسی نے سمجھایا ہے کہ عوام کی تائید سے زیادہ عسکری قیادت کو بلیک میل کرنااور اقتدار میں آنا زیادہ آسان ہے ممکن ہے وزیرآباد واقعہ غنیمت جان کراسی لیے دباؤ بڑھایاجارہاہواگر ایسا ہے تو یہ ہرگز صحت مندانہ سوچ نہیں اگر سیاستدان ملک کے محافظ اِدارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور عوام کی نظروں میں گرانے کی سازشوں کا حصہ بننے سے قبل صدام حسین یا کرنل قذافی کا انجام اور اُن کے ملکوں کے موجودہ حالات ذہن میں رکھیں تو کبھی پاک وطن کے اِداروں پر دشنام طرازی نہ کریں پہلے ہی آپس کی ناچاقیوں سے ملک دولخت کرنے کے بعد معیشت کا بھٹہ بٹھا چکے اگرکچھ کرنا ہے تو سب مل کر معیشت کی بحالی کے کام میں حصہ لیں جس کے لیے انصاف سے زیادہ وار کرنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.