پاکستان سے لوٹ مار ختم کرنے کا طریقہ

87

یہ با ت انتہا ئی اہم کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ معیشت کے خلاف افواہیں پھیلانے والے باز رہیں، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، ایک سال کی تمام ادائیگوں کا بندوبست کیا جاچکا ہے، پاکستان کی خاطر سیاسی مخالفت سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی کوئی کمی نہیں ہے، پٹرولیم مصنوعات کے جتنے ذخائر ہونے چاہئیں وہ موجود ہیں، یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ پاکستان سکوک بانڈز کی ادائیگی نہیں کرسکے گا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر ہماری نظر ہے، اور اس کو مینج بھی کیا جارہا ہے۔ اسحاق ڈار کے بارے میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ وہ الفاظ کے جادوگر نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں، وفاقی وزیر خزانہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی سربراہی میں بہترین اقدامات اٹھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ملکی معیشت کی بحالی ممکن ہوتی نظر آنا شروع ہوچکی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت کامیابیوں کی منازل تیزی سے طے کر رہی ہے، تمام تر رکاوٹوں، دھرنوں اور پروپیگنڈے کے باوجود پاکستان ترقی کی طرف گامزن، ملکی معیشت مستحکم اور امن و امان کی صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ حکومت کے منصوبہ جات سے پاکستان مضبوط، مستحکم اور فعال ہو رہا ہے، سی پیک منصوبوں کی بحالی اور پاکستان کو دوست ممالک کی جانب سے وسیع پیمانے پر مالی تعاون کی پیش کش نے ملکی معیشت میں بہتری کے امکانات واضح کردیے ہیں۔ بلاشبہ مضبوط ادارے وزیر اعظم شہباز شریف کی کامیاب سیاسی حکمت عملی کے عکاس ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں بلا تفریق ملک بھر میں ترقی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ دھرنوں اور احتجاج سے ملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن قوم نے ایسے عناصر کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ آج پاکستان اپنی ضروریات کے لیے درآمدات کی ادائیگی اپنی آمدنی سے کرنے کے قابل نہیں اور ہمیں قرض لے کر ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنا پڑ رہا ہے جو ایک مہنگا اور غیر پائیدار عمل ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی ان اسباب میں شامل ہے جس کی وجہ سے قومی خودانحصاری کے اہداف حاصل نہیں ہو رہے اور جو خوراک اور توانائی کے عدم تحفظ اور غربت میں اضافہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال حالیہ سیلاب کی وجہ سے مزید خراب دکھائی دے رہی ہے۔ تخمینہ ہے کہ حالیہ سیلاب سے مجموعی طور پر 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کی کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ، نومبر 2022 میں بیان کردہ تخمینہ جات کے مطابق صرف موسمیاتی واقعات سے پاکستان کو سال 2050تک اپنی قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) کا کم از کم اٹھارہ سے اٹھائیس فیصد سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں پر خرچ کرنا پڑے گا اور یہی وہ مرحلہ فکریہ ہے جہاں قومی معیشت کو درست کرنے کے لیے قومی سیاست کے اسلوب پر غور کیا جائے، جو عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔پاکستان ایک کمزور کم ترقی یافتہ اور کم آمدنی والا ملک ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کی برائے نام جی ڈی پی ہے، اگر عام پاکستان کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کی معاشی مارکیٹ کی پیچیدگیاں،کرنسی کا اُتار چڑھاؤ، افراط زر یا قومی مالیاتی پالیسیاں ایک غیر متعلقہ موضوع ہے۔ ایک عام پاکستانی کو اپنی روزمرہ زندگی پر نظر رکھنی پڑتی ہے جس سے اُس کی زندگی متاثر دکھائی دے رہی ہے، چاہے یہ ہماری گھریلو زندگی ہو یا قومی معیشت ہمیں اپنی مجموعی
خوشحالی بہتر بنانے کے لیے آمدنی میں اضافہ کرنا چاہیے اور یہی وہ محرک ہے جسے اقتصادیات کے ماہرین (اصطلاحاً) اقتصادی ترقی کہتے ہیں جب کہ اِس اقتصادی ترقی کو کسی ایک طبقے کے حق میں موافق اور دوسرے طبقے کے حق میں غیر موافق نہیں بلکہ مساوی ہونا چاہیے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر اِس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تمام حکومتوں نے زرعی شعبے کو نظر انداز کرتے ہوئے صنعتیں قائم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی، صنعتوں کی بھی اپنی اہمیت ہے مگر صنعتوں کے ساتھ اگر زرعی شعبے کو نظرانداز نہ کیا جاتا تو آج نہ صرف ملک خوراک کے حوالے سے خود کفیل ہوتا بلکہ برآمدات میں بھی موجودہ حد تک کمی نہ آتی لیکن اب حالات اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ملک میں صنعتیں تو ہیں لیکن خام مال میسر نہیں جس کی وجہ سے صنعتی پیداوار نہ صرف متاثر ہورہی ہے بلکہ خام مال کی درآمد پر اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے۔ ٹیکسٹائل ملوں کے لیے روئی تک درآمد کی جارہی ہے یہ غلط پالیسیوں اور ترجیحات کے نتائج ہیں، جنھوں نے ملک کو معاشی لحاظ سے اِس حد تک لاغر کردیا ہے کہ اب قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو گئی ہے، اگر قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنی ہے تو آمدن کے ذرایع بڑھانے ہوں گے جس کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں معاشی حالت کی خرابی کے باوجود ایسی غیر ضروری اشیا کی بلا روک ٹوک درآمد جاری ہے جن کے بغیر گزارہ ممکن ہے، اگر حکومت زرعی رقبہ بڑھانے پر توجہ دیکر غیر ضروری اشیا کی درآمد روک دے تو بڑھتے خسارے پرباآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے 1800 ارب کے کسان پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کھاد اور بجلی کی قیمتیں کم کی ہیں لیکن اِس سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کسانوں کے لیے کھاد اور بجلی مہنگی ہونے کی بنا پر کاشت کاری نفع بخش نہیں رہی، علاوہ ازیں فصل تیار ہونے پر تمام فوائد مافیاز لے جاتے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی وجہ سے کسان بددل ہو کر دیگر شعبوں کی طرف جانے لگے ہیں، ملک خوراک میں خود کفالت کی منزل کھونے کے بعد اب بھوک و افلاس کی طرف جانے لگا ہے۔ حکومت بار بار دعوے کررہی ہے کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے شب و روز مصروف ہے اور یہ کہ مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے مگر سیاسی عدمِ استحکام نے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام سے پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا۔ معاشی بحالی یہ ہو گی کہ منفی سے معیشت کو مستحکم ریٹنگ پر لایا جائے، اِس کے لیے لازم ہے کہ عارضی سہاروں پر تکیہ کرنے کے بجائے معاشی بحالی کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز طریقہ کار بناکر عمل بھی کیا جائے۔ دنیا میں موڈیز، اسٹینڈرز اینڈ پوورز اور فچ تین بڑی ریٹنگ ایجنسیاں ہیں جو قرضوں سے لے کر سرمایہ کاری کے لیے ملکوں کی ریٹنگ طے کرتی ہیں، اگر کسی ریاست کی ریٹنگ مستحکم کے بجائے منفی ہو تو اُسے یا تو قرضے دیے ہی نہیں جاتے اگر دیے جائیں تو انتہائی سخت شرائط کے ساتھ مہنگے دیے جاتے ہیں جن کی ریٹنگ بہتر یعنیaaa ہو انھیں وعدے پورے کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہونا جان کر قرض دینے والے عالمی اِدارے نرم شرائط کے ساتھ بھی بخوشی قرض جاری کر دیتے ہیں۔ برسہا برس ہمارے اقتصادی اور مالیاتی ماہرین نے ہمیں درآمد شدہ خام مال درآمد شدہ سازوسامان اور توانائی پر انحصار کرنے کی راہ دکھائی ہے اور قومی وسائل کو اِس انداز سے ترقی نہیں دی گئی جس میں درآمدات پر اِنحصار کم کیا جاتا اور نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم اپنی کمائی (آمدنی)سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ سال 2021میں پاکستان کی قومی خریداریوں کی مالیت (حجم) 69.04 ارب ڈالر رہا جب کہ پاکستان کی برآمدات جسے قومی آمدنی کہنا چاہیے محض 35.57 ارب ڈالر تھی اِس طرح پیدا ہونے والا 33.47 ارب ڈالر کا مالیاتی فرق اُن سبھی خرابیوں کی جڑ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی قومی ترقی خاطرخواہ انداز سے نہیں ہو پا رہی، اگرچہ ترسیلات زر جن کی مالیت سال دو ہزار اکیس میں اکتیس ارب ڈالر تھی (جی ڈی پی کا 8.7فیصد) ہیں کسی حد تک مالیاتی دباؤ کو کم کرنے کا باعث ہیں لیکن اِن ترسیلات زر میں بھی وقت کے ساتھ کمی آ رہی ہے۔
کیا شہباز شریف صاحب اور ڈار صاحب پرعزم ہیں؟ کیونکہ پاکستان کے مسائل کا حل تو کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ معیشت کو مکمل خود انحصاری بخشیں، کائبر نو فیصد کریں، ہا تھی نما محکمہ جات کی فوری پرائیویٹائزیشن، لا اینڈ آرڈر سخت ترین بے رحم اور مضبوط کریں، زرعی پیداوار چالیس فیصد بڑھائیں، آئی ٹی یونیورسٹی کا قیام اور سافٹ وئیر ایکسپورٹ، صنعتی پیداوار ساٹھ فیصد بڑھانے کے اقدامات، غیر ضروری درآمدات پر مزید مکمل کنٹرول، حکومتی و غیر ترقیاتی اخراجات میں ساٹھ فیصد فی الفور کمی، میگا پراجیکٹس کا آغاز، نئے الیکشن 2025 تک ملتوی کریں، ابھی تک وفاقی و صوبائی حکومتیں ایڈہاک ازم پر عمل پیرا ہیں جو ختم کرنا چاہیے، سولہویں گریڈ تک تنخواہوں میں تیس فیصد اضافہ، سترھویں گریڈ سے بائیس گریڈ تک چالیس فیصد سٹاف میں کمی، ملک کے اکثر محکمہ جات کو اتھارٹیز بنا دیا جائے۔اورسب سے اہم یہ کہ عام انتخا بات 2025میں کروائے جا ئیں۔

تبصرے بند ہیں.