نئے آرمی چیف کا تقرر

24

پرانا لطیفہ ہے کہ ایک شخص جو بہت لمبی لمبی چھوڑتا تھا اس نے اپنے ساتھ ایک بندہ رکھا ہوا تھا کہ جس کا کام یہی تھا کہ جب وہ بہت زیادہ ناقابل یقین بات کہے تو ساتھ والا بندہ ہلکا سا کھانس دے ۔ کالم میں گنجائش نہیں ورنہ پورا لطیفہ بیان کرتے لیکن اب عمران خان کو بھی اپنے ساتھ ایک کھانسنے والا بندہ رکھ لینا چاہئے ۔ اندازہ کریں کہ سازش بیانیہ سے مکمل یو ٹرن اور اس سے بھی بڑھ کر جس کے لئے ایک کھانسنے والے کی اشد ضرورت تھی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر ایک مفرور سے مشاورت پر سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے وکیلوں سے مشورہ کر رہے ہیں قانونی کارروائی کریں گے ۔ اگر تو آرمی چیف کے لئے وزارت دفاع کی جانب سے سمری بھیجی جا چکی ہوتی تب بھی پوائنٹ سکورنگ کے لئے یہ بات کہی جا سکتی تھی لیکن ابھی سمری آئی نہیں اور یہ بھی پتا نہیں کہ افواج پاکستان کس کے اور کتنے نام بھیجے گی اور بقول جناب عمران خان کے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہو گئی ۔جہاں تک وزیر اعظم کی میاں نواز شریف سے بات کرنے کا تعلق ہے تو اس پر تو پورا پاکستان بات کر رہا ہے بلکہ ہر جلسہ میں خود خان صاحب بات کر رہے ہیں اور اس طرح سے کر رہے ہیں کہ یہ تقرر متنازع ہو جائے ۔ جو بھی سیاست میں ہو گا اس نے سیاست ہی کرنی ہے لیکن ہر بات پر سیاست کو ایک بیانیہ بنا کر عوام کے سامنے کامیابی سے پیش کرنا یہ عمران خان کا ہی کام ہے اور یقینا اس فن میں ان کا دور دور تک کوئی مد مقابل نہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران خان کی طرف سے نئے آرمی چف کے تقرر پر بھی سیاست ہو رہی ہے ۔ آرمی چیف افواج پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے اور پاکستان میں مسلح افواج کے نظم و ضبط کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور در حقیقت یہ نظم و ضبط ہی پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے اور فقط اپنے سیاسی مفادات کی خاطرچیف کے تقرر کو متنازع بنانے کی کوشش پاکستان کی سلامتی پر وار ہے ۔
بہت کم لوگوں نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ جس جنرل باجوہ پر خان صاحب پر روز کوئی نہ کوئی اعتراض جڑ دیتے تھے آخر وہ ان پر اس قدر مہربان کیسے ہو گئے کہ انھیں توسیع دینے کا فارمولہ
خود ہی پیش کر دیا تو خان صاحب کی اس پیشکش میں کسی مثبت پہلو کا دخل نہیں تھا بلکہ اس میں بھی خان صاحب کی مخصوص مکارانہ سوچ کارفرما تھی ۔ یہ بات تو میڈیا میں آ چکی ہے کہ لانگ مارچ کے ذریعے دباﺅ ڈالنے کے ہتھکنڈے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کہ جس میں جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں ان سب میں خان صاحب کے کسی مطالبہ کو پذیرائی نہیں ملی۔ قبل از وقت انتخابات اور نہ ہی ان کی مشاورت سے ان کی مرضی کے آرمی چیف کے تقرر پر ان کی بات مانی گئی ۔ جب ہر طرف سے ہری جھنڈی دکھا دی گئی تو ان کے زرخیز ذہن نے پینترا بدلا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ چلیں آپ جلد انتخابات بیشک نہ کرائیں لیکن نئے انتخابات تک جنرل باجوہ کو توسیع دے دیں اور نئے انتخابات کے نتیجہ میں جو بھی جیت کر حکومت بنائے وہ نئے آرمی چیف کا تقرر کر لے ۔قارئین اب ایک لمحہ کے لئے یہاں رکیں اور غور کریں کہ جب یہ مطالبہ بھی منظور نہیں کیا گیا تو جس وجہ سے وہ آرمی چیف کے تقرر میں تاخیر چاہتے تھے انھوں نے اس کو کھل کر کہنا شروع کر دیا کہ ٹھیک ہے آپ اپنی مرضی کا ہی آرمی چیف لگا دیںلیکن بس یہ ضمانت دے دیں کہ ایک شخص کو آرمی چیف نہیں بنایا جائے گا ۔خان صاحب جس کو آرمی چیف نہ بنانے پر بضد ہیں انہی کی خاطر آرمی چیف کے تقرر کو موخر کرنا چاہتے تھے ۔ وہ بظاہر تو موجودہ حکومت کو آرمی چیف کے تقرر کے لئے نا اہل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتے تھے کہ اس معاملہ کو نئی آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے لیکن اس میں خاص بات یہ تھی کہ جس جنرل کے تقرر سے خان صاحب خوف زدہ ہیں یا بقول خان صاحب کے ان کی ” کانپیں ٹانگ“ رہی ہیں وہ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے ریٹائر ہو جائیں گے ۔اب سمجھ آئی بات کہ ” ہنگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا“ یعنی آرمی چیف کا تقرر اگر موخر ہو جاتا تو جس جنرل کے آرمی چیف بننے سے خان صاحب کو پریشانی لاحق ہے وہ ریٹائر ہو کر خود ہی آرمی چیف کی دوڑ سے نکل جاتے لیکن حکومت میں بیٹھے لوگ بھی احمق نہیں ہیں انھوں نے جب خان صاحب کے تمام مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا تو پھر بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور اب ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایک جنرل کے سوا باقی جس کو چاہے آرمی چیف بنا دیں ۔
عمومی تاثر یہی تھا کہ حکومت یکم نومبر یا نومبر کے پہلے ہفتہ میں نئے آرمی چیف کا تقرر کر دے گی اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنا لانگ مارچ28اکتوبر کو شروع کیا اور مارچ کے آغاز میں یہی کہا گیا تھا کہ 4نومبر تک اسلام آباد پہنچ جائیں گے لیکن اس دوران وزیر آباد میں فائرنگ کا واقعہ پیش آ گیا ۔ اس کے بعد جب دوبارہ لانگ مارچ شروع کیا گیا تو اس کے اسلام آباد پہنچنے میں تاخیر کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ حکومت جیسے ہی نئے آرمی چیف کا تقرر کرے گی اور شنید یہی ہے کہ جس نام پر خان صاحب کو تحفظات ہیں حکومت انھی کو آرمی چیف بنانے جا رہی ہے تو خان صاحب اپنے لاﺅ لشکر کے ساتھ انھی دنوں آسلام آباد پہنچنے کی تیاری کر رہے ہیں اور کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اگر تو ان کی مرضی کا آرمی چیف آ جاتا ہے تو یہ راولپنڈی یا اسلام آباد میں ایک تقریر کر کے لانگ مارچ کے اختتام کا اعلان کر دیں گے لیکن اگر آرمی چیف ان کی مرضی کا نہیں بنتا تو یہ اپنے مخصوص ذہنی رجحان کے مطابق حکومت اور نئے آرمی چیف پر دباﺅ ڈالنے کے لئے دھرنا دینے کا پروگرام بنا سکتے ہیں ۔یہ خان صاحب کی حکمت عملی ہے جو ضروری نہیں کہ کامیاب بھی ہو اس لئے کہ انھیں 2014کی طرح وفاقی حکومت کسی طور بھی دھرنا دینے کی اجازت نہیں دے گی اور اگر یہ دھرنا راولپنڈی میںیہ سوچ کر دیا گیا کہ پنڈی تو پنجاب سرکار کی عملداری میں آتا ہے تو انھیں اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ بیشک راولپنڈی پنجاب کی حدود میں ہے لیکن پنڈی پاکستان کی حدود سے باہر نہیں ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر خان صاحب ایک جنرل سے اتنے خائف کیوں ہیں تو انھی نے تو خان صاحب کے سامنے ان کے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں کی کرپشن سامنے لانے کی جسارت کی تھی جس کے بعد ہر لمحہ میرٹ کا واویلا کرنے والے خان صاحب نے ذاتی ناراضی کی بنیاد پر ان کے تبادلے کی فرمائش کر دی تھی جسے بعد از خرابی بسیار پورا تو کر دیا گیا تھا لیکن تعلقات میں ایک خلیج ضرور حائل ہو گئی تھی جو آخری وقت تک قائم رہی ۔اب اسے اتفاق کہہ لیں یا جو بھی کہ وہی جنرل سینئر موسٹ جنرل ہیں اور میرٹ پر انھی کا تقرر بنتا ہے اور یہی خان صاحب کی اصل پریشانی ہے کہ میرٹ پر ہوئی نامزدگی کے خلاف کیسے بیانیہ بنے گا۔

تبصرے بند ہیں.