بادشاہ کے دربار میں ایک میراثی کو خصوصی درجہ اور پروٹوکول حاصل تھا اس کی ڈیوٹی یہ تھی کہ امور ریاست کی انجام دہی کے دوران جو ذہنی تھکن طاری ہوتی ہے اسے دور کرنے کیلئے بادشاہ سلامت کو ہلکی پھلکی باتیں سنایا کرے تا کہ بادشاہ کا موڈ ٹھیک رہے۔ میراثی کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ بادشاہ کوحیران کر دینے والی بات سناتا تھا ایک دن حسب معمول اس نے بادشاہ کو بتایا کہ اس نے ایک مرغا دیکھا ہے جو بہت ہی بڑا تھا اور ساتھ اس نے اپنا دائیاں ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور زمین کی طرف دیکھ کر بلند ترین ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ مرغا اتنا بڑا تھا جس سے تاثر ہوا کہ مرغا تو میراثی کے قد سے بھی کہیں بڑا تھا ۔ بادشاہ حیرت میں ڈوب گیا کہ کیا مرغا اتنا بڑا ہو سکتا ہے تو میراثی کے دوسرے ساتھی نے فوراً حالات پر قابو پاتے ہوئے وضاحت کی اور میراثی کے اوپر اٹھائے ہوئے ہاتھ کے ایک فٹ نیچے اپنا ہاتھ لا کر کہا کہ دراصل مرغے کا سائز یہ تھا ۔ بادشاہ نے دوسرے میراثی سے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا میں رفو گر ہوں اپنے سینئر میراثی کی بات کو رفو کرتا ہوں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں طنزاً یوٹرن کا لفظ قومی میڈیا میں مخالفین کی طرف سے اکثر استعمال کیا جاتا ہے مگر پہلی بار ایک غیر ملکی اخبار الجزیرہ نے بھی ان کے امریکہ سے دوستی کے بارے میں حالیہ بیان کو یوٹرن قرار دے دیا ہے۔ الجزیرہ قطر کا ایک معتبر اخبار ہے۔ عمران خان کا برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو دیا گیا انٹرویو ان کی گزشتہ ایک سال کی سیاسی جدوجہد اور regime change کو وائٹ واش کر دیتا ہے۔ عمران خان نے اس میں کہا تھا کہ ہم وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اگر ہم اقتدار میں آ گئے تو امریکہ سے مستحکم تعلقات قائم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات آقا اور غلام کے رہے ہیں جس میں سارا قصور ہماری حکومتوں کا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اور کارکن سخت مشکل میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ پہلے تو اپنے لیڈر کے ہر بیان کی رفوگری کر لیتے ہیں مگر اب وہ یہ کام کیسے کریں۔ اس معاملے میں ہمیں بانی ایم کیو ایم کی سیاست شدت سے یاد آرہی ہے وہ لندن بیٹھ کر مشروب مغرب سے لطف اندوز ہو کر اکثر ایسا بیان جاری کر دیتے تھے کہ جب ہوش و حواس میں واپس آتے تو ایم کیو ایم کی ساری قیادت کو لائن حاضر کر کے ٹاسک دیتے کہ اب آپ وضاحت کریں کہ قائد تحریک نے جو فلاں بات کی ہے اس کا اصل متن وہ نہیں بلکہ یہ ہے اور قائد کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ اس طرح جاری رہتا تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ وہ گھر کی بات گھر میں ہی رہتی تھی کیونکہ بانی ایم کیو ایم سابق وزیراعظم نہیں تھے کہ ان کے بیان کی بازگشت دوسری حکومتوں تک جاتی لہٰذا ایم کیو ایم کے کارکنوں اور لیڈروں کی نسبت پی ٹی آئی والوں کا کام کئی گنا مشکل نظر آتا ہے مثلاًآپ کل تک امریکہ کو تختہ الٹنے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں اور اب آپ اسی سانس میں کہہ رہے ہیں کہ آپ سب کچھ بھول کر سب کچھ پیچھے چھوڑ کر امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ایسے تو نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کے دوست اور دشمن حتیٰ کہ امریکہ خود حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ رجیم چینج ایک سیاسی پراپیگنڈا تھا جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ سفارتی حلقے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ یہ سب کیا ہے کیونکہ کچھ معاملات میں یوٹرن کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی۔ البتہ تحریک انصاف کی ساری سیاست یوٹرن کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔ بہرحال عمران خان نے سازش تھیوری کو خود ہی مسترد کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے یوٹرن اور رفو گری پر ہمیں مشہور شعر یاد آرہا ہے کہ
پوشاک زندگی تجھے سیتے سنوارتے
سو چھید ہو گئے ہیں رفو گر کے ہاتھ میں
عمران خان کے بیان کا دوسرا حصہ امریکی غلامی سے متعلق ہے جو سوائے پاکستان کی بے عزتی کرنے کے حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ امریکی مخالفت کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اگر ہماری ماضی کی حکومتیں امریکی غلامی کو قبول کر لیتیں تو پہلی بات تو یہ ہے کہ نیو کلیئر صلاحیت حاصل نہ ہوتی اور اگر حاصل ہو بھی گئی ہے تو پاکستان ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرلیتا۔
غلامی سے انکار اور تردید کی سب سے بڑی مثال پاکستان کے چائنہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے وہ تعلقات ہیں جنہیں امریکہ نے کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ سی پیک جیسا منصوبہ اگر امریکی مخالفت کے باوجود جاری ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ پاکستان امریکہ کا غلام نہیں ہے۔ اسی طرح ایک وہ مثال لے لیں افغانستان میں امریکی مفادات کے برعکس پاکستان کا طالبان حکومت سے بہتر تعلقات رکھنا ہمیشہ امریکہ کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے بلکہ آج بھی امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے۔ اب بھی اگر عمران خان پاکستان کو امریکہ کا غلام قرار دیں تو یہ اپنے ملک کی توہین اور غداری کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ معاشی معاملات میں پاکستان کو بیک فٹ پر رہنا پڑتا ہے اور میں آئی ایم ایف سے عمران خان نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ اپنے دور میں لیا تھا اس IMF میں امریکہ کا شیئر سب سے زیادہ ہے اور ہمیں ان کی شرائط قبول کرنا پڑتی ہیں۔
تحریک انصاف کی سیاست کے مقابل اب شہباز شریف کی بات ہو جائے جو مصر میں کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے مگر واپس آنے کے بجائے اچانک لندن جا پہنچے جہاں کئی دن تک ان کے نواز شریف کے ساتھ مذاکرات اور مشاورت رہی جس کا تحریک انصاف نے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کی سرزمین پر ہونے چاہئیں اس سے ن لیگ اتنے بیک فٹ پر آگئی ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی یہ کہنا پڑا کہ آرمی چیف کے معاملے پر نواز شریف سے مشاورت نہیں ہو رہی۔ یہ بیان کتنا غیر منطقی ہے سب کو پتہ ہے۔اگر ن لیگ خصوصاً شہباز شریف سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے تو وہ اس نازک موقع پر اس مشاورت کو اتنی اعلانیہ شکل
دینے کے بجائے خفیہ رکھ سکتے تھے مگر یہ شاید نواز شریف کی اپنی خواہش ہے کہ ہر خاص و عام کو خبردار کیا جائے کہ ن لیگ میں فیصلے کہاں ہوتے ہیں شاید اسی وجہ سے صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ آئین میں آرمی چیف کے تقرر میں اپوزیشن سے مشاورت ضروری نہیں ہے البتہ اگر مشاورت کر لی جائے تو اس میںکوئی ہرج بھی نہیں ہے۔ یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ اگر نواز شریف سے مشاورت کر رہے ہیں تو عمران خان سے بھی کر لیں مگر عمران خان کے بیانات اس معاملے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں وہ کہتے ہیں طالبان سے مذاکرات کر لوں گا مگر ان سے نہیں کروں گا باہمی منافرت جب اس حد تک پھیل چکی ہو تو مفاہمت کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔
حکمران جماعت کے وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار صاحب آج کل منظر سے غائب ہیں جب اسی پارٹی کے مفتاح اسماعیل پاکستانی معیشت کو بخیے ادھیڑ رہے تھے تو اسحاق ڈار لندن میں بیٹھ کر روزانہ یقین دہانی کرایا کرتے تھے کہ مجھے پتہ ہے معیشت کو کیسے درست کرنا ہے انہوں نے مفتاح کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میں جانتا ہوں آئی ایم ایف سے کیسے ڈیل کرنا ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف نے انہیں کسی قسم کی سبسڈی سے روک دیا ہے۔ پٹرولیم پر لیوی 50 روپے فی لٹر مفتاح کے بعد لگائی گئی ہے بلکہ آئی ایم ایف اب پٹرول پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگانے کے لیے دباو¿ بڑھا رہا ہے اور جنوری میں یہ جی ایس ٹی لاگو ہونے کا امکان ہے لہٰذا آنے والے وقت میںپٹرول سستا نہیں بلکہ مزید مہنگا ہو گا۔
موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ اگست ستمبر 2023ءتک انتخابات کرائیں لیکن جیسے جیسے یہ حکومت آگے بڑھے گی عوامی مشکلات بڑھتی جائیں گی افراط زر اس وقت 27 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس سال جب بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے 5 ارب ڈالر قرضے پر مذاکرات شروع کیے تو پوری دنیا کے لیے حیران کن تھا حالانکہ بنگلہ دیش میں افراط زر اس وقت بھی 9 فیصد ہے جبکہ ہمارا ان سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اگر معاشی حالات کنٹرول نہ ہوئے تو اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ جیت تحریک انصاف کی کارکردگی کی بنا پر نہیں ہو گی بلکہ ن لیگ کے مخالف ووٹ دینے کی خواہش کی وجہ سے ہو گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.