جمہوری نظام کی رسوائی اور پاکستان

62

جمہوریت ایک ناقص نظام سیاست ہے اس میں گھوڑے، گدھے، خچر، بیل، لومڑی، شیر، بندر سب ایک جیسے ہی مانے اور جانے جاتے ہیں سب کا ووٹ برابر وزن رکھتا ہے اس نظام کے ذریعے مالی، معاشی اور معاشرتی طور پر مؤثر اور طاقتور طبقات، اقتدار پر غالب ہو کر اپنے گروہی مفادات کے لئے کام کرنے لگتے ہیں جبکہ عامۃ الناس کی فلاح و بہبود ثانوی بلکہ پرلے درجے پر چلی جاتی ہے۔ جمہوریت کے ناقدین اس نظام کی اور بھی بہت سی خامیاں بتاتے ہیں۔ سب کو سچ بھی مان لیا جائے تو پھر بھی جمہوریت دور حاضر میں سکہ رائج الوقت مانا جاتا ہے انسان نے تمدنی شعور کے ارتقا میں جو بہترین نظام ترتیب دیا ہے وہ جمہوریت ہی ہے ابھی تک اس سے بہتر نظام، انسان معرضِ وجود میں نہیں لا سکا ہے۔ دنیا اسی نظام یعنی ”فرد کی رائے“ پر مبنی نظام کو تعمیروترقی کا زینہ اور قرینہ مانتی ہے۔ فرد کی آزادی تحریر و تقریر اس نظام کی خوبصورتی ہے، دور حاضر میں آزاد نظام معیشت اور جمہوریت نے اپنا آپ منوایا ہے، ریاستی جبر پر قائم نظام، سوشلزم ناکام اور نامراد ثابت ہو چکا ہے اس لئے اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ یہی نظام یعنی جمہوریت ہی چل رہا ہے اور دنیا پر غالب و حکمران ہے۔
پاکستان بھی ایک جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ برطانوی نظام سیاست و حکمرانی کے ماہر تھے انہوں نے انگریزوں کے ساتھ انہی کے نظام کے مطابق آزادی کی جنگ لڑی اور بالآخر دورِ حاضر (یعنی 1947 میں) کی سب سے بڑی مسلم ریاست قائم کر دکھائی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوری نظام جڑیں نہیں پکڑ سکا۔ جاگیرداروں، زمینداروں، سرداروں، وڈیروں نے نوکرشاہی کے ساتھ مجرمانہ گٹھ جوڑ کر کے ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتارا اور پھر 1958 کے مارشل لا نے فوج کو اقتدار کے کھیل میں فریق بنا دیا اور ایسا فریق جوآج تک یعنی 2022 تک سیاست و طاقت کے کھیل میں فیصلہ کن کھلاڑی مانا جاتا ہے۔ ملک پر 4 دفعہ جرنیلوں نے شب خون مارا۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوئے انہیں اقتدار کے حریص سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل رہی لیکن ہر دفعہ مارشل لا کے بطن سے عوامی نمائندگی کا نظام برآمد کرنا پڑا۔ یہ عوام کی جمہوریت پر ایمان اور یقین کی علامت ہے کہ طالع آزما جرنیل بھی جمہوریت کی باتیں کرنے پر مجبور ہوتے رہے ہیں۔ لیکن نظام میں جرنیل اس قدر دخیل ہیں اور ہمیں ان کی مداخلت اور گرفت کا اتنا یقین ہے کہ اب جنرل باجوہ نے فوج کے بطور ادارہ سیاست سے الگ رہنے اور یہ سلسلہ کم از کم 20 سال تک جاری رہنے کا اعلان بھی کر دیا ہے پھر بھی ہم فوج کو پکار رہے ہیں ان کی سیاست سے دستبرداری ہمیں قبول نہیں ہے ہم ان کی نیوٹریلٹی کو بھی للکار رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کے بغیر ان
کی مداخلت کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔
دوسری طرف فوج کی غیرجانبداری کے باعث یا سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی کے باعث نظام مکمل طور پر مفلوج ہوتا نظر آ رہا ہے اپریل 2022 میں ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں حکومتِ وقت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ عمران خان نے یہ حادثہ قبول نہیں کیا وہ کبھی سائفر کا بیانیہ لے کر اور کبھی نیوٹرلز کو رگیدنے کا نعرہ لے کر اور بالآخر فوری انتخابات کا نعرہ لے کر احتجاج کی روش اختیار کر چکے ہیں ان کی انکار اور احتجاج کی سیاست نے ملک کو انتشار کا شکار کر دیا ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے اسلام آباد پر یورش کرنے کے لئے نکل پڑے ہیں ان کے رویوں کے حوالے سے جو انکشافات سامنے آئے ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہی نہیں ہیں بلکہ شرمناک ہیں انہیں جان کر ان کی منافقانہ سیاست کا بدنما چہرہ سامنے آتاہے عوام کو، اپنے فین کلب کو اشتعال دلانے کے لئے اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں انہیں آمادہ احتجاج کرتے ہیں دوسری طرف چھپ چھپا کر فوج کو مداخلت پر آمادہ کرنے کے لئے اس کے سربراہ کو غیرمعینہ مدت کی توسیع دینے کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔ ان کے غیرجمہوری رویوں کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ جب حکمران تھے تو اپوزیشن کو مانتے نہیں تھے۔ اپوزیشن سربراہ اور دیگر رہنماوں پر حملہ ٓور رہے انہیں چور ڈاکو کہہ کر رگیدتے رہے آج عمران خان اقتدار سے باہر ہیں تو حکومت کو نہیں مانتے۔ انہیں چور ڈاکو کہہ کر بے عزت کرنے میں مصروف ہیں۔
ان کے لانگ مارچ کی تحریک بظاہر فوری انتخابات منعقد کرانے کے مطالبے کے گرد گھومتی نظر آ رہی ہے لیکن جس حکومت نے انتخابات کرانے کا فیصلہ کرنا ہے عمران خان اسے قطعاً مانتے ہی نہیں ہیں چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا لقب دیا گیا ہے وہ کوئی موقع جانے نہیں دیتے کہ جب حکمران اتحادکی قیادت پر طعن و تشنیع اور دشنام طرازی نہ کریں۔ عمران خان سیاسی و معاشرتی اخلاقیات تو دور کی بات ہے عام انسانی اخلاقیات کی پابندی کرنے سے گریزاں ہیں وہ جس قسم کی زبان اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی پست معیار کی ہوتی ہے عمران خان نے جس پست معیار کا سیاسی کلچر اپنے فین کلب کے ممبران اور ماننے والوں کے درمیان فروغ دیا ہے وہ قطعاً قابل قبول یا قابل ستائش نہیں ہے۔ دوسری طرف جس آئینی ادارے نے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہے الیکشن بالفعل منعقد کرانے ہیں اس کے سربراہ کے بارے میں بھی عمران خان دشنام طرازی کر رہے ہیں اس سربراہ کو عمران خان نے ہی چیف الیکشن کمشنر چنا تھا اور اس وقت ان کی امانت اور دیانت داری کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے، الیکشن کمیشن ایک قومی ادارہ ہے اور اس کا سربراہ ایک آئینی عہدیدار ہوتا ہے عمران خان نے اس کے بارے میں جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کا فوری انتخابات کا مطالبہ کس حد تک مبنی برحقیقت اور صداقت ہے۔
آخری بات، اس حوالے سے ہماری آخری امید آرمی چیف سے ہو سکتی ہے عمران خان انہیں بھی اپنے نشانے پر رکھ چکے ہیں انہیں جانور، میر جعفر اور نجانے کیا کیا خطاب دے چکے ہیں ان کے خلاف عوامی فضا کو اس قدر مسموم کیا جا چکا ہے کہ وہ کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ویسے بھی فوج سیاست سے توبہ کا اعلان کر چکی ہے اس لئے صلح صفائی کے لئے فوج کا کردار ممکن نہیں ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کیا رنگ لائے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ مارچ اور دھرنے کے ذریعے مطالبات منوائے نہیں جا سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت گرائی جا سکتی ہے پھر عمران خان 4 نومبر کو اور اس کے بعد کیا کریں گے۔ حکومت انہیں جتھہ اور حملہ آور تصور کر کے اسلام آباد کے مرکز میں داخل نہیں ہونے دینا چاہتی جبکہ عمران خان اسے اپنا جمہوری حق قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان لانگ مارچ کو آرام سے اپنا مبینہ مطالبہ منوائے بغیر ختم نہیں کریں گے پھر دنگا فساد اور خون خرابہ ہو سکتا ہے جو بالعموم مارشل لا پر منتج ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی کہیں ایسا ہی تو ہونے نہیں جا رہا ہے؟ دیکھتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.