کہنے کو یہ ایک فرد واحد کا اپنی ہی سیاسی پارٹی کے خلاف دائر کردہ ایک کیس تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے خلاف اکبر ایس بابر کا غیر ملکی یا ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں دائر کردہ کیس نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقومی سطح پر شہرت اختیار کر گیا۔ اس کیس میں اب تک ہونے والے فیصلے اور آنے والے دنوں میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے یقینا ملک کی سیاست میں ایک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔
اس کیس کے میرٹ کیا تھے ، اس کا فیصلہ آنے میں پی ٹی آئی نے کیا کیا تاخیری حربے اختیار کیے اور کیس کا رخ دیکھتے ہوئے فیصلہ سے قبل کس قسم کی سیاسی پوزیشن لی، ان معاملات پر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور اور سیاستدان کافی بحث کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری بھی رکھے ہوئے ہیں۔
مذکورہ کیس پر، (تاخیر سے ہی سہی لیکن) الیکشن کمشن آف پاکستان کا فیصلہ آچکا ہے اور اگر کسی کو اس فیصلہ میں ابہام نظر آتا ہے تو یقینا اعلیٰ عدلیہ اسے دور کر دے گی۔ اس دوران آئینی اور قانونی ماہرین میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنی عقل، فہم اور فراست سے مستفید فرماتے رہیں گے۔ لیکن اس تمام ایکسرسائز کے ساتھ ساتھ اس قسم کے معاملات کا اخلاقی اور سماجی پہلو سے جائزہ لینا بھی انتہائی ضروری ہے۔
سب سے پہلے اپنے چند قریبی دوستوں سمیت بیرون ملک مقیم کافی پاکستانیوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے ایک پوائنٹ کی وضاحت ضروری ہے۔ ان احباب کی خدمت میں عرض کر دوں کہ خان صاحب اور ان کی سیاسی پارٹی کے خلاف فیصلہ بیرون ملک پاکستانیوں سے فنڈنگ لینے پر نہیں بلکہ غیر ملکی افراد اور اداروں(ان میں بھارت اور اسرائیل بھی شامل ہیں) سے امداد اور فنڈز لینے اور مبینہ طور پر رشوت لے کر سی پیک پر کام رکوانے پر آیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے نام پر فنڈز حاصل کر کے ان کو پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ غیر ملکی افراد اور اداروں سے ممنوعہ انداز میں فنڈز لینے کے الزامات میں الیکشن کمشن آف پاکستان کی جانب قصوروار ٹھہرائے جانے اور اس سلسلہ میں شوکاز نوٹس کا سامنا کرنے والی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے تو سیاست کی بنیاد ہی انصاف اور احتساب کے نام پر رکھی تھی۔ انہوں نے ملک میں چلنے والے سیاسی سیٹ اپ کو سٹیٹس کو قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا اور وہ مستقل بنیادوں پر اپنے مخالفین کو چورِ ،ڈاکو، لٹیرے اور جانے کیا کیا کہتے بھی رہے ہیں لیکن صد افسوس کہ جب جب ان کو کچھ کارکردگی دکھانے کا موقع ملا تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے بیانات اور دعووں کی روشنی میں کچھ کر کے دکھاتے وہ ایک پنکچر شدہ گاڑی کی طرح بالکل ہی ٹھس ہو گئے اور اپنے دعووں کے برعکس وہ تمام کام کرتے رہے جن پر وہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اور آج بھی ان کے پاس حکومت حاصل کرنے کے علاوہ نہ کوئی ٹارگٹ ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔
اب تک عمران خان صاحب نے جارحانہ اور الزام تراشی کی سیاست بہت کامیابی کے ساتھ کی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت ریاستی اداروں اور سیاسی مخالفین کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کیے رکھا ہے لیکن اب پہلی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ دھمکیوں اور الزامات کا ردعمل آ نا شروع ہو گیا ہے۔
آٹھ سال تک دباو اور مصلحتوں کا شکار رہنے والے الیکشن کمشن آف پاکستان نے کچھ نہ کچھ دلیری دکھاکر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (نواز)، جو اب تک عمران خان صاحب کی جارحانہ سیاست کے مقابلے میں کافی محتاط اور سہمی سہمی سی محسوس ہوتی تھی، کچھ کچھ پھن پھیلا کر کھڑی ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
وفاقی کابینہ کی ایک میٹنگ میں حکومت کی جانب سے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر اور الیکشن ایکٹ کے تحت کاروائی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے خلاف ڈیکلریشن سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور کاروائی میں آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمشن آف پاکستان میں دائر کر دیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا کاروائیوں کے ساتھ ساتھ مسٹر عمران خان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین فرماتے ہیں کہ وہ اس قسم کے فیصلہ کو خوش آمدید کہیں گے۔ واضح رہے کہ خان صاحب نے اسی قسم کی بات اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے پر بھی کی تھی لیکن بعد ازاں اس تحریک سے نمنٹنے کے لیے ہر قسم کے غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈے آزمانے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اب وہ ایک قومی پارٹی کے سربراہ ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد ان کو فالو کرتی ہے خاں صاحب کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انہیں ماننا چاہیے کہ سیاست میں اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی کی حد تک نہیں لے کر جانا چاہیے اور نہ ہی اپنے پارٹی کارکنان کو اس قسم کی ترغیب دینی چاہیے۔ اور ہر وقت ـ’میں نہ مانو‘ کی پالیسی کو ترک کر کے ریاست کے مفاد کو ترجیح دینی چاہیے اور ملکی مفاد میں کچھ فیصلے مل جل کر کرنے چاہیں۔
عمران خان صاحب اب تک جس قسم کے سیاسی رویے اپنائے رکھے ہیں شائد انہیں ترک کرنے کا وقت آ گیا ہے کیونکہ ردعمل کے طور پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے تیور بھی ٹھیک نہیں لگتے۔ اگر باقی پارٹیوں نے بھی پی ٹی آئی کی طرز پر الزام تراشی، دھمکیوں اور گالی گلوچ کی سیاست شروع کر دی تو پھر یقینا نوے کی دہائی کے بعد ایک مرتبہ پھر سے سیاسی میدان میں جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خان کی جارحانہ سیاست اس وقت تک ہی کامیاب تھی جب تک انہیں اسی انداز میں جواب نہیں مل رہا تھا ۔ یہاں یہ بھی واضح کرنا انتہائی ضروری ہے کہ خان صاحب تقریروں اور ٹی وی ٹاک شوز میںاپنی جس دلیری اور بہادری کا تاثر دیتے ہیں اس کی حقیقت صرف انہی کے علم میں ہے جو انہیں قریب سے جانتے ہیں۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور جسٹس فائز عیسیٰ جیسے معاملات پر جب صورتحال کو اپنے لیے بگڑتے دیکھا تو خان صاحب نے کس تیزی سے اپنی پوزیشن تبدیل کی تھی۔ اس لیے یہ بات تو پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جب ان کے اپنے ہی انداز میں جواب آنا شروع ہو گیا تو خان صاحب کو سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑے گی اور وہ ایک دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہو جائیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.