دَرِ عدل کب کھُلے گا؟؟ ؟

31

سُنا تھا کہ ججز خود نہیں بولتے بلکہ اُن کے فیصلے بولتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ججز تو بولتے ہیں مگر اُن کے فیصلے ۔۔۔۔؟۔ ہماری سیاسی تاریخ میں جسٹس منیر سے لے کر اب تک ہمیشہ نظریۂ ضرورت ہی کارفرما رہا ہے۔ 2017ء میں میاں نوازشریف کی ایک اقامے کی بنیاد پر نااہلی کا انتہائی متنازع فیصلہ آنے کے بعد اب تک کئی ایسے متنازع فیصلے سامنے آچکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عالمی تاریخِ عدل میں 139 میں سے پاکستان 130 ویں نمبر پر ہے۔ قوم انتظار میں ہے کہ کب دَرِعدل وا ہو اور وہ سُکھ کا سانس لے کیونکہ قوموں کی تاریخ میں اوّلین حیثیت عدل ہی کی ہے۔ جہاں عدل نہیں وہاں قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ یوں تو پاکستان کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے آئے جب عدل کی بالادستی کا بول بالا ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے میزانِ عدل کے سامنے کوئی نہ کوئی جسٹس منیر ڈَٹ کر کھڑا ہو جاتا۔ الیکشن کمیشن کا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سامنے آچکا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عدل کا پلڑا ایک دفعہ پھر زورآوروں کی طرف جھکتا ہے یا نہیں؟۔ ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کو امیر المومنین حضرت عمرؓ کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ اگر عدل کا پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے اُس کی طرف جھُک جائے تو پھر قیصروکسریٰ کی حکومتوں اور اسلامی ریاست میں کیا فرق ہوا؟۔
فارن فنڈنگ کیس 2008ء سے 2013ء تک محدود ہے۔ یہ وہ دَور ہے جب عمران خاں کی سیاسی پہچان نہ ہونے کے برابر تھی۔ اُن کے پاس مناسب اُمیدوار بھی نہیں تھے۔ اِس کے باوجود پاکستان مخالف بھارتی، اسرائیلی اور یورپی کمپنیوں نے اُن پر ڈالروں کی بارش کیے رکھی۔ یقیناََ اِس کے پیچھے اُن کا کوئی مقصد پوشیدہ ہوگا۔ شاید حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا کہنا سچ تھا کہ عمران خاں کو پاکستان مخالف لابی تیار کر رہی ہے۔ آج جب ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے تو ہمیں بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جب فیصلے کے مندرجات سامنے آئے تو دماغ گھوم کے رہ گیا کہ اگر صرف 5 سالوں میں اربوں روپے کی ممنوعہ فنڈنگ ہوئی تو 2014ء سے مارچ 2022ء تک کپتان نے کیا گُل کھلائے ہوںگے۔ کپتان کے ساڑھے تین سالہ دَورِ حکومت کی کرپشن کا کچھ حصّہ تو سامنے آچکا۔ توشہ خانہ کی لوٹ مار، فرح گوگی کی کرپشن، پنکی پیرنی کی حصّہ داری، ہیروں کی انگوٹھیاں اور نکلس اور القادر یونیورسٹی کے لیے ملک ریاض سے حاصل کی گئی 458 کنال زمین کے علاوہ بھی کرپشن کی کئی کہانیاں زباں زَدِ عام ہیں۔ لیکن فارن فنڈنگ کے سامنے اِن کی حیثیت بقدرِاشکِ بُلبُل بھی نہیں۔
فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد تحریکِ انصاف کی طرف سے شور مچنا شروع ہوا کہ یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں کے دباؤ پر جلدی میں سنایا گیا ہے۔ حقیقت مگر یہ کہ تحریکِ انصاف کے بانی رُکن اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ممنوعہ فنڈنگ کیس دائر کیا جس کا فیصلہ 8 سالوں بعد اگست 2022ء میں سنایا گیا۔ اِس دوران تحریکِ انصاف متواتر تاخیری حربے استعمال کرتی رہی۔ الیکشن کمیشن نے 21 مرتبہ تحریکِ انصاف کو مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ مارچ 2018ء میں سکروٹنی کمیٹی قائم ہوئی جس کے 95 اجلاس ہوئے۔ سکروٹنی کمیٹی نے 20 مرتبہ تحریکِ انصاف کو متعلقہ دستاویزات جمع کروانے کا حکم دیا۔ جس پر تحریکِ انصاف نے 24 مرتبہ التواء مانگا۔ اِن 8 سالوں میں تحریکِ انصاف نے 6 مرتبہ اعلیٰ عدالتوں میں کیس کے ناقابلِ سماعت ہونے اور الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں جنہیں پذیرائی نہ ملی۔ اِس کے باوجود بھی اگر فیصلہ جلدی میں کیا گیا تو پھر کیا روزِقیامت فیصلہ ہوتا؟۔
تحریکِ انصاف کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ غلط اور جانبدارانہ ہے۔ عرض ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اُن رَدی کے ٹکڑوں کی طرح نہیں جنہیں کپتان مجمعٔ عام میں لہرا لہرا کر مخالفین کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے کے لیے حواریوں کو بیوقوف بناتا رہا۔ یہ فیصلہ ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ فیصلے میں شامل دستاویزات سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر کی مہیا کردہ ہیں۔ یہ دستاویزات عمران خاں کے دَورِ حکومت میں حاصل کی گئیں۔ اِس لیے ڈاکٹر ارسلان، سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کوغداری سے ٹیگ بھی نہیں کرسکتا۔ اِنہی دستاویزات کے مطابق 2008ء سے 2013ء کے درمیان 14 بینک اکاؤنٹ چھپائے گئے۔ تحریکِ انصاف نے سکروٹنی کمیٹی میں جواب داخل کرتے ہوئے 11 اکاؤنٹس سے اظہارِ لاتعلقی کیا۔ یہ اکاؤنٹس سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق گورنر کے پی کے شاہ فرمان، سابق گورنر عمران اسماعیل، پنجاب کے سابق وزیر محمودالرشید اور تحریکِ انصاف کے دیگر ارکان نے آپریٹ کیے۔ اِنہی 14 اکاؤنٹس میں سے ایک اکاؤنٹ عمران خاں اور ایک صدر عارف علوی کے نام پر بھی ہے۔ یہ تمام اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے گئے اور کاغذاتِ نامزدگی داخل کرواتے وقت اِن اکاؤنٹس کو ڈکلیئر نہیں کیا گیا جو بذاتِ خود جُرم اور جس کی سزا نااہلی ہو سکتی ہے۔
2017ء میں حنیف عباسی نے سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ کے سامنے درخواست دائر کی کہ عمران خاں نے الیکشن کمشن میں جھوٹا بیانِ حلفی جمع کروایا ہے۔ اِس لیے اُس کے خلاف آرٹیکل 62-1Fکے تحت کارروائی کی جائے۔ تب چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر الیکشن کمشن اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عمران خاں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کروایا تب اُس کے خلاف آرٹیکل 62-1F کے تحت تاحیات نااہلی کی کارروائی ہوگی۔۔۔۔ اب جبکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں یہ ثابت ہو چکا کہ عمران خاں نے اکاؤنٹس چھپائے، غلط فارم وَن جمع کرایا اور پارٹی اکاؤنٹس کے متعلق دیا گیا بیانِ حلفی جھوٹ پر مبنی ہے تو پھر حنیف عباسی بنام عمران خاں کیس کے فیصلے کے تحت عمران خاں کی نااہلی کسی شک وشبے سے بالاتر ہو جاتی ہے۔ اگر محض ایک اقامے اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی بنیاد پر میاں نوازشریف کو آرٹیکل62-1F کے تحت یہ کہتے ہوئے تاحیات نااہل قرار دیا جا سکتا ہے کہ باوجودیکہ میاں نوازشریف نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی لیکن لے تو سکتے تھے اِس لیے وہ تنخواہ (جو کبھی لی ہی نہیں گئی) ڈکلیئر کرنا ضروری تھا تو عمران خاں نے ممنوعہ فنڈز نہ صرف وصول کیے بلکہ اُنہیں الیکشن کمشن میں ڈکلیئر بھی نہیں کیا۔ پھر وہ کیسے آرٹیکل62-1F کی شمشیرِ برہنہ سے بچ سکتے ہیں؟۔
پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2017ء کے سیکشن 204 کے سَب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں، وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنوردلشاد کا کہنا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے بیرونی ممالک سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے تو الیکشن کمشن کے پاس ایسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کرنے اور اُن کے خلاف ضابطۂ فوجداری کے تحت کارروائی کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو سفارشات بھیجنے کا اختیار ہے۔ اب جبکہ یہ ثابت ہو چکا کہ عمران خاں نے غیرملکی حکومت، غیرملکی کمپنیوں اور غیرملکی افراد (جن میں بھارتی اور اسرائیلی افراد) بھی شامل ہیںتو پھر تحریکِ انصاف کی رجسٹریشن منسوخ ہونا ہمارے نزدیک اظہرمِن الشمس ہے۔ البتہ یہ پاکستان ہے یہاں قانونی موشگافیوں کے بَل پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال الیکشن کمشن کا 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ ایسی ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے بچ نکلنا تحریکِ انصاف کے لیے اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر مریم نواز نے ٹویٹ کیا ’’فتنہ خاں پاکستان کا پہلا اور واحد سیاستدان ہے جو ایک ہی فیصلے میں ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ بیک وقت جھوٹا، کرپٹ، منی لانڈرر اور بیرونی قوتوں کی ایماء پر کام کرنے والا ثابت ہوا‘‘۔

تبصرے بند ہیں.