قومی معیشت کی زبوں حالی

19

قومی معاشی معاملات سردست قابو میں نہیں آ رہے ہیں، روپے کی قدر گرتے گرتے خاصی نڈھال ہو چکی ہے، ڈالر 206 روپے کے اردگرد منڈلاتا رہا ہے، لوڈشیڈنگ مکمل طور پر بے قابو ہو چکی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں ہر وقت کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی ایک نام سے اور کبھی دوسرے نام سے، اس میں مختلف ٹیکسز شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کہاں تک ہوتا رہے گا اور بجلی کے نرخ کہاں ٹھہریں گے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ نرخوں کی بات کم ہو رہی ہے اب تو بجلی کی دستیابی بہت بڑا ایشو بن گیا ہے، گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ بے حساب لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں عوام بے حال ہو چکے ہیں، بجلی کے ترسیلی اوقات کسی کو پتہ نہیں۔ بجلی کے وولٹیج میں اتار چڑھاؤ بھی کبھی کبھی جان لیوا ثابت ہوتا ہے جب پتا چلتا ہے کہ بجلی کے جھٹکے نے فریج، ٹیلی ویژن اور بجلی کے کئی نازک آلات موت کے حوالے کر دیئے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی سننے والا کہیں بھی نہیں ہے۔
پٹرول اور اس سے متعلق مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی بلندی کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ پٹرول کی قیمت ایک ڈالر فی لیٹر تک چلی جائے گی اور یہ انتہا ہو گی۔ پٹرول مہنگائی کی۔ لیکن ہم نے جیتے جی دیکھ لیا کہ ڈالر 200 روپے کی نفسیاتی حد کراس کر گیا ہے اور پٹرول کی قیمت کسی بھی نفسیاتی اور غیر نفسیاتی حد و حساب کا احترام کیے بغیر 250 روپے تک جا پہنچی ہے جو کسی طور بھی شہریوں اور صنعت و تجارت کے لیے قابل قبول نہ ہونا تو دور کی بات جان لیوا ثابت ہو چکی ہے۔ توانائی کے اتنے بلند نرخوں اور غیر یقینی صورتحال کے باعث ہماری صنعتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں، مصارف پیداوار میں اضافے کے باعث عالمی مارکیٹ میں ہماری مصنوعات کی کھپت و طلب کم ہو رہی ہے۔ برآمدی آمدنی گھٹتی ہی چلی جا رہی ہے۔ معاشی عدم منصوبہ سازی کے باعث درآمدی اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ زرمبادلہ کی آمد کم اور خرچ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے سردست تجارتی خسارہ 40 ارب تک پہنچا ہوا ہے جبکہ ہمیں آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا پیکیج حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہم سے ایسی شرائط بھی منوا رہا ہے جن کا مان جانا ہماری انفرادی معیشت کے لیے زہرقاتل ثابت ہو گا۔
پٹرولیم و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کا طوفان نہیں بلکہ سونامی آ گیا ہے، مہنگائی 30 فیصد سے اوپر جا رہی ہے، عام استعمال کی اشیا اور خدمات بہت سے طبقات کی پہنچ سے دور جا چکی ہیں۔ فوڈ انفلیشن یعنی اشیا خور و نوش کی مہنگائی خطرناک حدود کو چھو رہی ہے۔ روپے کی بے قدری اور ذرائع آمدنی کی قلت نے معاملات کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔
عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومتی کارکردگی کے بارے میں دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی و نالائقی اپنی جگہ، اس پر مستزاد انہوں نے سیاسی محاذ پر بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ان کے ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی میں 4 بجٹ پیش کیے گئے۔ ہر دفعہ بجٹ پیش کرنے والا نیا وزیرخزانہ ہوتا تھا۔ معاشی پالیسیوں کے عدم استقرار اور گہرائی کی عدم موجودگی کے باعث ہماری معیشت بگڑتی چلی گئی حتیٰ کہ وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے۔ موجودہ حکمران، جاری معاشی ابتری کے ذمہ دار تو نہیں ہیں لیکن جس معاشی بہتری کا وعدہ کر کے یہ اقتدار میں آئے تھے وہ ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ عمران خان 20، 22 سال سے حکمرانوں، اشرافیہ اور نظام حکمرانی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے، ان کی بہت سی باتیں تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے صد فیصد درست نہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ’’نجات دہندہ‘‘ کے طور پر پیش کیا اور معاشرے کے ایک
طبقے نے، ان کی یہ بات تسلیم بھی کر لی حتیٰ کہ الیکشن 2018 میں انہوں نے سب سیاسی جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے اپنا قیادت کا لوہا منوا لیا وہ اقتدار میں لائے گئے لیکن انہوں نے اپنے ووٹروں کو ہی نہیں بلکہ اپنے سرپرستوں کو بھی بُری طرح مایوس کیا معاشی و انتظامی طور پر ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی بری طرح ناکام ہوئے۔
پھر اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیادوں پر ن لیگی اتحادی حکومت قائم ہوئی لوگوں کو اپنی مشکلات کے حل کی امید ہونے لگی تھی لیکن عوام کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں، موجودہ حکمران عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں پر اقتدار میں آئے ہیں، 100 دن سے زیادہ وقت گزرنے کو ہے لیکن کسی بھی محاذ پر عوام کو ریلیف نہیں ملا ہے ابھی تک ہماری موجودہ حکومت ایک محاذ پر بڑی تندہی اور دل و جان سے آگے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور وہ ہے آئی ایم ایف کو منانے کا منصوبہ۔ اسے خوش کرنے اور اس سے قرضے کی قسط حاصل کرنے کے محاذ پر بڑی یکسوئی اور مہارت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ویسے حکمرانوں کی اعلیٰ ترین کاوشوں اور حکم بجا لانے کی تمام ممکنہ اور غیر ممکنہ کاوشوں کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف نے مان جانے کا اشارہ نہیں دیا ہے۔ حکمران جماعت کے وزراء اس حوالے سے مختلف بیانات جاری کر رہے ہیں اور مہنگائی میں پسے ہوئے عوام موجودہ حکمرانوں سے نالاں نظر آ رہے ہیں۔
بجٹ 2022-23 میں 7004 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کرنے کے لیے تو منصوبہ سازی نظر آتی ہے کیونکہ یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی نگرانی میں اس کی خوشنودی کے حصول کی خاطر بنایا گیا ہے۔ اس لیے اس میں تحریر کردہ اہداف کے حصول کی ممکنہ حد تک بہتر منصوبہ سازی نظر آ رہی ہے۔ لیکن مہنگائی پر قابو پانے، قدر زر میں بہتری لانے اور عامۃ الناس کی بہتری کے لیے کہیں بھی ٹھوس و پائیدار حکمت عملی نظر نہیں آ رہی ہے۔ قومی قرضوں پر سود اور اصل زر کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور خسارے میں چلنے والے سرکاری کاروباری اداروں کو ہلاک ہونے سے بچانے کے لیے مخصوص اخراجات کے بعد بچنے والی تھوڑی بہت رقم کو کار سرکار پر خرچ کرنے کے بعد کچھ بھی نہیں بچتا جو ملکی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جا سکے۔ ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکیں جو معیشت میں کھلے پن کا باعث بنیں، روزگار کے مواقع پیدا کریں، گردش زر میں اضافہ کریں، قابل صرف شخصی آمدنیوں میں اضافہ کریں، عام آدمی کی قوت خرید میں بڑھوتی کا باعث بنیں۔ خوشحالی لائیں۔ ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے ہی جینا ہو گا۔ مرتے مرتے جینا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.