نئی حکومت پرانے بیوپار

21

72سالہ جمہوری دور میں چہرے وہی مگر الفاظ اور بیانات بدل بدل کر اس ملک کی جمہوریت کو وہی چہرے چلا رہے ہیں ۔اور اگر اُن چہروں میں سے کسی ایک کو بھی کرسی سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے توسب سے پہلے جمہوریت کو خطرہ لا حق ہو جاتا ہے اور پھر وہی لوگ شور مچا مچا کر زمین اور آسمان ایک کر دیتے ہیں۔مزے کی بات تو دیکھیے کہ حکومت نئی اور بیوپار وہی پرانے کیا اس نئی حکومت کے ہاتھوں ملک و قوم کا بھلا ہو سکتا ہے؟ یہ بھی وہی لوگ ہیں جنہوں نے اب بہت سے پوائینٹ اُٹھائے جو کہ صیح معنوں میں عوامی آواز کے عین مطابق تھے۔مگر جونہی وہ لوگ کرسی پہ براجماں ہوئے تو وہ اُن باتوں اور اُن الفاظ کو یکسر بھول گئے کہ ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے؟اب پھر جھٹ سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پہلی اہم اسائنمنٹ پر امریکہ روانہ ہو چکے ہیں اور وہ ورلڈ بینک کے صدر سے ملاقات کریں گے۔
اب میں اپنے قارئین اور عوام کو اپنے کالم کی وساطت سے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اب پھر سے ایک بار مہنگائی کے نئے طوفان آنے کے لیے کمر کس لیں۔پہلے اسی اپوزیشن نے شور مچایا تھا کہ تیل کی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا ہے تو پی ٹی آئی کا یہ بیان تھا کہ یہ قیمتوں میں جو اضافہ ہے وہ عالمی منڈیوں کی وجہ سے ہے ۔اب نرخوں میں اضافے کے لیے یہی بیان ان کی طرف سے بھی جاری ہوگا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔متوقع ہے کہ آنے والے وقت میں پیٹرول کی قیمتوں میں 20سے50روپے تک اضافہ ہوگا اور ان قیمتوں میںاضافے کو شہباز شریف نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ پہلے سے مہنگائی سے پسی عوام نئی حکومت کو کوسے گی۔مگر یہ بات یاد رکھیے کہ موجودہ حکومت اس چیز کو زیادہ دیر کے لیے روک نہ پائے گی۔
اب بات کروں گی چند روز پہلے کی حکومت پہ اُن کی حالت کو دیکھ کر مجھے وہ بات یاد آگئی جو اکثر بچپن میں سیانے اور بڑے بوڑھوں کے منہ سے سُنا کرتے تھے کہ صبح کے بادشاہ، شام کوفقیری پہ آسکتے ہیںتب سمجھ بوجھ نہ ہونے کیوجہ سے اس بات کا مطلب نہیں سمجھ پائے مگر جس دن گورنمنٹ ختم ہوئی بادشاہ اور وزراء کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ بات بخوبی سمجھ آگئی۔
پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کو تو محنت ہی نہ کرنی پڑی بلکہ یہ کام خود عمران خان نے آسان کر دیا۔گھنٹیاں تو تب ہی بجنا شروع ہوگئیں تھیں کہ جب کپتان کے 100دن ڈسکس ہونے شروع ہو گئے تھے۔عمران خان کو اندازہ نہیں تھاکہ ہمارے ملک کی جمہوریت مظبوط پلرز پہ نہیں کھڑی وہ اسی وقت الرٹ ہو جاتے اگر ملک و قوم کے لیے سچ میں کچھ کرنا چاہتے تھے تو وقت کافی دیا گیا تھا۔
عمران خان عوام کے لیے ایک ایسی امید تھی کہ یہ اقتدار میں آکر ملک کو درست سمت کی طرف لا سکتے ہیں جنہوں نے نعرہ لگایا تھا دو نہیں ایک پاکستان،کرپشن مکائو مہم کا کہا،چوروں اور لٹیروں کے احتساب کے کٹہرے میں لانے کا کہا،نئے اور پڑھے لکھے چہروں کو اسمبلیوں میں لانے کا کہا،مگر میں ایسے بہت سے وزیر مملکت  جو مانگے تانگے کی سواری او رمانگ کپڑے پہنا کرتے تھے آج وہ پراڈو اور عالیشان گھروں کے مالک ہیں اُن کا احتساب ہو کے تا حیات بین ہونا چاہیے اور  ایسی خاتون وزیرجو ایسی جگہ رہائش پزیرتھیں جس کے گھر کے آگے گٹر کا پانی راوی کی طرح بہتا تھا آج وہ سب سے مہنگے علاقے اسلام آباد میں عالی شان بنگلے کی مالکہ ہے اور اب ان کے رشتے دار بھی امیر ہونگے اور وہ ان کو کسی نہ کسی نے تحفہ بھی دے دیا ہو گا۔ آخر کرسی پہ بیٹھتے ہی یہ لوگ ارب پتی ہو جاتے ہیں اتنی جلدی تو کوئی فیکٹری چلانے والا یا کوئی بزنسمین بھی نہیں امیر ہوتا۔ عمران خان خود اپنے دشمن نکلے جنہوں ٹکٹس دئیے تو جلے ہوئے کارتوسوں کو،ریزو سیٹس اُن خواتین کو دی جن کو معلوم ہی نہیں کہ اس جماعت نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی جدوجہد کی پارٹی عہدے دئیے تو (ق)، (ن)، (م)، (ش) اور نہ جانے بھانت بھانت کے لوگوں کو سونپے ،وہ خواتین جنہوں نے دن رات ایک کی اُن کو پاس بھی پھٹکنے نہ دیا۔تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز امپورٹ کیے گئے،اور تمام مشیر خاص بھی وہی لوگ لگائے گئے جو نون الیکٹیبل تھے وہ تو اب اقتدار کا مزہ لے کے مزے میں ہیں اب دیکھیے گا اُن میں سے آپ کے ساتھ کتنے باقی رہتے ہیںاب اس نئی جدوجہد میں۔
ایک ڈائیلاگ بڑا مشہور کیا تھا مجھے کیوں نکالا جو سب کو معلوم ہے نوزاشریف کو عمران خان اپنے خطاب میں ٹارگٹ کرتے تھے ۔اب وہی سوال انداز بدل کہ عمران خان پوچھ رہے ہیں؟ عمران خان کو پہلے کالم نگار،تجزیہ کار،میڈیا ،عدلیہ،سب پسند تھے جن کو پڑھتے دیکھتے اور سنتے تھے مگر اب تو شاید وہ نہ نیوز دیکھتے ہیں اور نہ ہی شاید کوئی کالم پڑھتے ہیں کیونکہ اب یہ غیر جانبدار نہیں رہے بلکہ غیر ملکی سازش میں ملوظ ہو چکے ہیں۔ اب صرف اور صرف سوشل میڈیا کو دیکھتے ہیں اور صرف اُن لوگوں کو جو اُن کی ہی زبان بولتے ہیں۔مزے کی بات کہ عمران خان کے ارد گرد اور اُن کے ایڈوائزر بھی شاید اُن کو لاعلم رکھتے رہے ہیں کہ رات 12بجے عدالت لگ گئی ہے۔ایک آخری سٹنٹ جو نہ جانے کس عقل کے دھنی کے کہنے پہ مارا ویسے تو عمران خان خود عقل کے دھنی ہیں مگر یہ بیوقوفی جس کے بھی کہنے پہ ماری اس انسان کو تو داد ملنی چاہیے ۔عمران خان نے جو رونا پیٹا غیر ملکی سازش اور مراسلے کاوہ بات بھی آج اپنے انجام کو پہنچ گئی،کیونکہ عمران خان کے بیانیے کو اسد مجید،تینوں سروسز چیف اور DGISIاس کی تحقیقات کو بھی مکمل کرکے یہ کہہ دیا کہ یہ بیان بے بنیاد اور جھوٹ پہ مبنی ہے۔اب جائیں تو کدھر جائیں باقی کی غبارے سے ہوا فواد چوہدری نے پوری کر دی۔اب اس کھیل کو جو عمران خان کرکٹ کا کھیل سمجھ رہے تھے یہ کھیل تو مہنگا پڑ گیا اور عمران خان پہ اب آرٹیکل 6لاگو ہوتا ہے۔عمران خان نے خود کو اپنے اس بیان میں دفن کر لیا دوسری طرف فارن فنڈنگ کیس کا پنڈارا باکس کھلا ہے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی مکمل بین ہو جائے کیونکہ یہ بھی سُننے میں آرہا ہے کہ پارٹی کا نیا نام تجویز کیا جائے مگر میں یہی کہوں گی کی آنے والے وقتوں میں اگر کوئی بھی جماعت بین ہو وہ صرف جماعت بین نہ ہو بلکہ پارٹی چلانے والی شخصیات بین ہوں تاکہ کسی نئے نام سے کوئی بھی پارٹی نہ چلا سکیں۔دوسری اہم بات الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ایسی شخصیات کو بھی تاحیات بین کیا جائے جن پہ کرپشن کے چارجز ہوں پھر ہی شاید ہم اس ملک کو درست سمت کی طرف لا سکیں۔اور ایسے پڑھے لکھے نئے چہروں کو آگے لایا جائے جو سیاسی سمجھ بوجھ اور بہتر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں چاہے اُن چہروں کا سیاسی بیک گرائونڈ نہ ہو کیونکہ اب ان لوگوں ،ان چہروں،اور بدلتے بیانات کی آڑ میں ان کی کرپشن سے اس ملک کی عوام تنگ آچُکی ہے کیونکہ حکومتیں بدلتی ہیں بیوپار وہی رہتے ہیں یوں تو کبھی یہ ملک درست سمت کی طرف نہیں جا سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.