چلو یہ بھی مان لیا لیکن…؟؟؟

55

حکومت اور اس کے وزیر مشیردن رات زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہیں کہ معیشت مضبوط اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے گرین پاسپورٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے چلو یہ بھی مان ہی لیتے ہیں تو پھر آٹا چینی دالیں گھی سستا کیوں نہیں ہو رہا ؟چلو یہ بھی مان ہی لیتے ہیں کہ عوام خوشحال ہو گئے ہیں تو پھر بجلی کے بل کیوں بڑھ رہے ہیں گیس کے بل کیوں زائد سے زائد آ رہے ہیں ؟چلو اس کو بھی رہنے دیں اگر ملک میں خوشحالی ہے تو لوگ خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں ؟چلو مان لیتے ہیں کہ حالات کہیں بھی خراب نہیں تو پھر نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے کیوں مارے مارے نوکریوں کیلئے خوار ہو رہے ہیں؟چلو مان ہی لیتے ہیں کہ حالا ت چین اور امریکہ سے بھی بہتر ہیں تو پھر سٹیٹ بینک کیوں روز پٹ سیاپا کر رہا ہے؟کیوں آئی ایم ایف کے آگے لیٹا ہی جا رہا ہے؟کیوں وزرا ء کو مہنگائی نہ ہونے کی تردید پہ تردید کرنا پڑتی ہے وہ بھی سرکاری خرچے پر؟جبکہ صورتحال یہ ہے ،ملک میں مہنگائی کی شرح دو سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جبکہ ایک ہفتے میں 28 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ادھر گزشتہ ہفتے میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، لہسن 37 روپے 76 پیسے فی کلو مہنگا ہوا، ٹماٹر کی قیمت میں 5 روپے 54 پیسے فی کلو اضافہ ہو، زندہ مرغی 6 روپے 21 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی، ایک ہفتے میں ماچس کی ڈبیا 8 پیسے مہنگی ہوئی، گھی 3 روپے 83 پیسے فی کلو مہنگا ہوا۔ ادارہ شماریات کے مطابق مٹن،
بیف، دال چنا، دال مسور، دودھ، دہی بھی مہنگے ہوئے، رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں 11 اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی جبکہ 12 کی قیمتوں میں استحکام رہا، پیاز 51 پیسے اور آلو 33 پیسے فی کلو سستے ہوئے۔ ادارہ شماریات کے مطابق آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 3 روپے 12 پیسے سستا ہوا، چینی 47 پیسے فی کلو سستی ہوئی، دال مونگ، دال ماش، ایل پی جی اور گڑ بھی سستا ہوا۔ دریں اثنا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سامنے آنے لگ گئے ہیں، ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 0.22 فیصد اضافہ ہو گیا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 18.09 فیصد ہو گئی۔ سب سے کم آمدن والے افراد کے لئے مہنگائی 19.40 فیصد ہو گئی ہے،درجہ اول برانڈ گھی تیار کرنے والی گھی مل نے گزشتہ روز درجہ اول کے برانڈڈ گھی کی قیمت26 روپے کلو تک بڑھا دی جس سے اس کے نرخ 418 روپے کلو سے بڑھا کر444 روپے کر دیئے گئے ہیں ، اسی طرح 5کلو کا ڈسپنسر پیک 2090 روپے سے بڑھا کر 2220 روپے کا کردیا گیا، بات یہاں ہی رکنے والی نہیں ایک کلو گھی کی قیمت میں 80 روپے تک اضافے کا خدشہ ہے، جبکہ نیپرا کو فی یونٹ بجلی 6 روپے 10 پیسے مہنگی کر کے صارفین پر 60 ارب روپے کا بوجھ ڈالنے کی درخواست جمع کرا دی گئی ہے اگر سب اچھا ہے اور میڈیا ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہے توپھر آئے روز بجلی،پٹرول ،گیس مہنگی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ آپ کسی دکاندار کے پاس مہنگائی کا سوال اٹھائیں توایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب تبدیلی سرکارکے کرشمے ہیں،چینی بحران میں خود حکومت یہ اعتراف کر رہی ہے کہ مافیا نے ا س دوران صارفین کی جیبوں پر اربوںروپے کا ڈاکہ ڈالا ہے،کہا جاتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھتی ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے، کئی اشیا ء منڈی سے چلتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے 15 گنا مہنگی ہو جاتی ہیں تو پھر حکومتی رٹ اس وقت کہاں سو جاتی ہے لمبی تان کر ؟ہم ہر کام کا نزلہ دوسروں پر ڈالنے کے عادی ہیں جس طرح وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خزانہ خالی ملا سابق حکمران لوٹ مار کرتے رہے جس سے آج یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ماضی میں لوٹ مار کی گئی لیکن کیا اس وقت عمران خان کو پتہ نہیں تھا جب نام نہاد 126 دن کے دھرنے میں عوام کو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے جھوٹے موٹے قصے سنایا کرتے تھے ؟چلو یہ بھی مان ہی لیتے ہیں کہ لوٹ مار کی گئی لیکن اس وقت تو ملک چل رہا تھا ؟اب کیا آسمان آن گرا ہے کہ لوٹ مار بھی نہیں ہو رہی اور ملک بھی بد حال ہوتا چلا جا رہا ہے ،رواں سال بھی سابقہ روایات کے مطابق حکمرانوں کے بقول خوشیوں کے ڈھیر لگا دے گا اور اسی آس پہ 2022 ء بھی گزرجائے گا اور عوام ریلیف کو ترستے ہی رہ جائیں گے سیاستدان دلفریب نعروں کے ساتھ نئے الیکشن کی تیاری کرنا شروع کر دیں گے… اللہ اللہ خیر صلا ؟؟؟

تبصرے بند ہیں.