گوادر میں تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی کا انعقاد ہوا اور اس میں حیران کن حد تک خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔ حق دو تحریک نے سیاسی وابستگیوں سے بڑھ کر لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے پر آمادہ کیا اور مسئلہ چونکہ سیاست سے بڑھ کر لوگوں کے روزگار سے جڑا ہوا تھا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ جوق در جوق شامل ہوئے۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے مخصوص ریاستی ہتھکنڈے بھی استعمال ہوئے لیکن لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ترقی اس وقت ہو گی جب مقامی آبادی بھی ساتھ شامل ہو لیکن آبادی کو نکال کر آپ زمینوں پر قبضہ کرنا چاہیں تو پھر سانحات جنم لیتے ہیں۔ اسی دسمبر میں ہم نے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا لیکن افسوس ہم نے اس سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ بنگالی غدار تو نہیں تھے نہ ہی پاکستان بنانے میں ان کی قربانیاں مغربی پاکستان سے کم تھیں بلکہ ان سے کچھ زیادہ ہی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن آخری دن تک جئے بنگلہ جئے پاکستان کے نعرے بلند کرتا رہا۔ وہ صرف مشرقی پاکستان کا لیڈر نہیں بننا چاہتا بلکہ اس کا خواب تو پورے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا تھا۔ پھر علیحدگی کیوں ہوئی وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر مجبور کر دیا۔ کیا اب یہ موقع نہیں ہے کہ ہم حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کو سرکاری طور پر جاری کریں۔
کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اس کا حق دے لیکن یہ اس وقت ہو گا جب ان طبقات کو لگام ڈالی جائے گی جس نے ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہاں کا چلن عجیب ہے کہ لوگوں کی آواز کو سننے کے بجائے ان کی آواز کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ تشدد زدہ لاشیں ملتی ہیں تو سوشل میڈیا پر اس طرح کی تحریریں سامنے آتی ہیں کہ را کے لیے کام کرنے والوں کا یہی انجام ہو گا۔ جن لوگوں کو جبری گمشدگیوں کے بعد قتل کیا گیا یا جنہیں غائب کیا گیا ہے ان پر کسی جگہ کوئی مقدمہ درج نہیں تھا تاہم انہیں را کا ایجنٹ قرار دینے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی گئی اور جس کے بارے میں تمام تر شواہد موجود ہیں کہ وہ را کا ایجنٹ ہے وہ مزے سے جیل میں ہے۔ ہم اسے ملنے والی سزا پر عملدرآمد کرنے سے قاصر ہیں بلکہ نئی قانون سازی کر کے اس کی رہائی کا بندوبست کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
حق دو تحریک صرف گوادر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان میں موجود مختلف طبقات بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ میں نے طبقات کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہم انہیں مختلف قوم نہیں مان رہے بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم ایک قوم ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس قوم کی تشکیل کب ہوئی۔ 1947 سے پہلے تو پاکستانی قوم کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن 1947 کے بعد ہم ایک قوم بن گئے۔ لوگوں کو ان کی شناخت سمیت قبول کریں گے تو ان کی ریاست کے ساتھ وفاداری میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گا۔ صدیوں سے وہ جو زبان بول رہے ہیں اور جس تہذیب میں رہ رہے ہیں اچانک وہ سب کچھ ختم کر کے آپ کی آواز میں آواز ملانے سے تو رہے۔
متشدد مذہبی گروہوں کو ہم قومی دھارے میں لانے کے جتن کرتے ہیں مگر قوم پرستوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ہم کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لوگوں کے گھر گرانے کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہیں مگر ریاستی مشنری کا استعمال کر کے بے گھر ہونے والوں کے لیے نئے گھر بنانے سے قاصر ہیں۔ کراچی میں نسلہ ٹاور کے مکینوں کے ساتھ ریاست جو کر رہی ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کئی منزلہ یہ عمارت راتوں رات نہیں بنی، سرکاری اداروں نے اس کے این او سی جاری کیے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ اس عمارت کے مکینوں کو بے گھر کر دیا گیا اور ان کے رہنے کے لیے کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا۔
گوادر والے تو بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں سے زیادہ با شعور نکلے کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر آ گئے۔ انہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ اپنی آواز کو بلند کیا۔ پاکستان کے باقی شہروں نے ان کے ساتھ یک جہتی کا کون سا مظاہرہ کیا ہے۔ قومی میڈیا بمشکل اس احتجاج کو کور کر سکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کے جائز مطالبات کو سنا جائے گا اور اس حوالے سے صوبائی حکومت سے بات کریں گے۔ وزیراعظم کو خبر ہو کہ مسئلہ فشنگ ٹرالرز کا نہیں بلکہ ان کے مطالبات کی ایک فہرست موجود ہے اور ان سے ہر شق پر بات کرنا ہو گی۔ وہاں کے لوگ گوادر کی ترقی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ سب کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کا علاقہ ترقی کرے مگر اس کے ثمرات سے مقامی آبادی کو مستفید کرنا ضروری ہوتا ہے۔ گوادر پاکستان کا حصہ ہے اور اسے سی پیک کے نام پر چین کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
گوادر کے بعد کشمیر کا ذکر بھی ہو جائے۔ وہاں کے وزیراعظم کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ میڈیا کے ایک حصے کو جوتے مارنے کی بات کر رہے ہیں۔ قصور ان کا نہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ ہے کہ آپ کے خلاف کوئی خبر شائع ہو تو وضاحت کرنے کے بجائے آپ لوگوں کو جوتے مارنے کے بات کرتے ہیں۔ حضور اپنے ماضی پر
نظر ڈالیں، چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے۔ جس وقت اقتدار کا نشہ اترے گا پھر آپ اسی میڈیا کے منتیں کر رہے ہوں گے۔ کشمیر کے معاملات پر آپ کی گرفت اتنی ہے کہ پہلے چیف سیکرٹری اور آئی جی کا تقرر پاکستان سے ہوتا تھا اب ڈرائیور تک پاکستان سے بھرتی ہو رہے ہیں۔ صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے پانچ ڈرائیورز کو ایک حکم نامے کے تحت بھرتی کیا ہے۔ کیا درجہ چہارم اور چھوٹے گریڈ کے ملازم بھی اب ریاست میں موجود نہیں ہیں یا ریاست کے لوگ اتنے امیر ہو گئے ہیں کہ وہاں کوئی یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سری نگر کے حکمرانوں کو ہم کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کہتے ہیں، جب آپ کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں ہے تو پھر آپ کو کن القابات سے نوازا جائے اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔ برصغیر پر نظام سقہ کی حکومت آئی تھی جس نے چمڑے کے سکے جاری کر دیئے ، اس نے کم از کم اپنے اختیارات کا استعمال تو کیا تھا۔ آپ میڈیا کو جوتے مارنے کے بجائے اپنے اختیارات کا استعمال کریں اور ریاست کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی کردار اگر آپ ادا کر سکتے ہیں تو کریں نہیں تو میڈیا کو جوتے مارنے کے بجائے پروٹوکول کے مزے لیں۔ ویسے بھی لوگ اب عثمان بزدار کی حکومت کے عادی ہوتے جا رہے ہیں آپ کے بھی عادی ہو جائیں گے۔
تبصرے بند ہیں.