پانامہ لیکس کو خفیہ دستاویزات کا اب تک کا سب سے بڑا انکشاف کہا جا رہا ہے۔ پانامہ کی ایک لا فرم ہے جو امیر لوگوں کے لیے ایسی کمپنیاں بناتی ہیں جہاں وہ اپنا پیسہ چھپا سکیں۔1977 سے قائم پانامہ بیس اس کمپنی نے دنیا بھرمیں اپنا بزنس پھیلا رکھا ہے جو سالانہ فیس لے کر لوگوں کے مالی معاملات کی بھی دیکھ بھال کرتی ہے۔اس کی ویب سائٹ پر بیالیس ممالک میں چھ سو لوگ کام کرتے ہیں۔موزیک فانسیکا ٹیکس کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے ممالک سوئٹرز لینڈ ، قبرص ، برطانوی جزیروں جیسے مقامات پر کام کرتی ہے۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی آف شورز سروسز فراہم کرنے والی فرم ہے جو تین لاکھ کمپنیوں کیساتھ جڑی ہے۔اس کاسب سے مضبوط رابطہ برطانیہ ہے جہاں اس فرم کی نصف کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔پاناما لیکس کے معاملے نے پاکستان کی ملکی سیاست میں اْس وقت ہلچل مچائی جب 4 اپریل2016 میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ’’آف شور‘‘ مالی معاملات عیاں ہو ئے۔ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والاڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے۔ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔ان انکشافات کے بعد2016 میں پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔فائل سے معلوم چلتا ہے کہ کس طرح موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔ان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام ہیں بشمول ان آمروں کے جن پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں۔ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔اگرچہ ٹیکس سے بچنے کے قانونی طریقے ہیں لیکن زیادہ تر جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت کیسے حاصل کی اور اس دولت پر ٹیکس نہ دینا شامل ہے۔اہم الزامات میں سے چند یہ ہیں کہ شیل کمپنیاں بنائی جاتی ہیں جو کہ ظاہری طور پر تو قانونی ہوتی ہیں لیکن یہ ایک کھوکھلی کمپنی ہوتی ہے۔یہ کمپنیاں دولت کے مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار سودیوچے زیتنگ نے حاصل کیے جس نے انہیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیا۔یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارڈیئن بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجود ہیں۔
پانامہ لیکس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام آنے کے بعد اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں دائر کی گئیں جنہیں سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔کیس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بینچ ختم ہوگیا۔نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بنے جنہوں نے کیس کی از سر نو سماعت کی اور جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا جس نے ساٹھ روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ جمع کرائی ۔ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے پاناما لیکس کے تاریخ ساز مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا ہے‘ فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے پڑھ کرسنایا۔لارجر بنچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں وزیراعظم اوران کے خاندان کے خلاف دائر کردہ مقدمے کا فیصلہ کمرہ عدالت نمبر1 میں سنایا ‘ فیصلے میں متفقہ طور پروزیراعظم نواز شریف کو نااہل قراردے دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اورجسٹس اعجاز افضل پہلے ہی وزیراعظم کو صادق اور امین کی صف سے باہر کرتے ہوئے نا اہل قرار دے چکے تھے۔جسٹس اعجاز افضل نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہے دوججز نے 20 اپریل کو نواز شریف کو نااہل قراردے دیا تھا‘ حکم نامے میں وزیراعظم نواز شریف‘ کیپٹن صفدر اوراسحاق ڈار کو بھی نااہل قراردیا گیا ہے۔ اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے کون کون سے مراحل درمیان میں آئے اُن کا ذکرذیل میں کیا جارہا ہے۔
تین اپریل 2016 کوپاناما کی لاء فرم موزیک فونسیکا کی جانب سے پاناما پیپرز کی پہلی قسط جاری ہوئی جس میں میاں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے متعلق دستاویزات بھی شامل تھیں۔5 اپریل 2016 کوپاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دستاویزات پر اپنا موقف بیان کرنے کے لیے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔10 اپریل 2016 کوپاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے شریف خاندان کے ناجائز اثاثوں کا معاملہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں لے جانے کا مطالبہ کردیا،یکم مئی 2016 کوپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔16 مئی 2016 کونواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنے اثاثوں سے متعلق وضاحتی خطاب کیا۔24 جون 2016کو پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعظم کی نا اہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن میں اٹھایا۔24 اگست 2016 کو جماعت اسلامی نے عدالت عالیہ میں وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائرکردی۔29 اگست 2016 کونواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لیے پی ٹی آئی نے بھی سپریم کورٹ کا رخ کیا۔7 اکتوبر 2016کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وفاقی دارالحکومت بند کرنے کا اعلان کردیا۔20 اکتوبر 2016 کوسپریم کورٹ نے اْس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کی دائر کردہ درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے دیا۔28 اکتوبر 2016 کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس انور جمالی کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔یکم نومبر 2016 کوسپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور حکومت سے ٹی آر اوز طلب کیے۔7 نومبر 2016کونواز شریف کے تینوں بچوں کی جانب سے عدالت میں جواب جمع کرایا گیا۔14نومبر 2016 کو تحریک انصاف نے ملک کی عدالت عالیہ میں ثبوت پیش کیے۔9 دسمبر 2016 چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور مقدمے کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل ہوگیا۔4 جنوری 2017 کو وزیراعظم نااہلی ریفرنس کی سماعت کے لیے سپریم کور ٹ کا نیا بنچ تشکیل دیا گیا اور جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں مقدمے کی از سر نو سماعت کا آغازکیا۔20 اپریل 2017کو محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے میں دو جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔تین ججوں کے فیصلے میں مشترکہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔28 مئی 2017 کو نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔15 جون 2017 کو نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے تین گھنٹے طویل پیشی ہوئی۔10جولائی 2017 کوپاناما کیس کی مشترکہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔28 جولائی 2017 کوجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا۔
پانامہ لیکس کا شور ابھی جاری تھا کہ 4اکتوبر2021 کوپاناما لیکس سے بڑے پنڈورا پیپرزمیں 700پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوگئیں۔پنڈورا پیپرز میں 2وفاقی وزراء شوکت ترین، مونس الٰہی کے علاوہ فیصل واوڈا، پیپلزپارٹی کے شرجیل میمن، اسحاق ڈار کا بیٹا علی ڈار، وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی، وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے خزانہ مالیات وقار مسعود خان کا بیٹا، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر عارف عثمانی اور نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر عدنان آفریدی، وزیراعظم کے سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی، ابراج کے بانی عارف مسعود نقوی، بڑی کاروباری شخصیت طارق شفیع شامل ہیں۔ وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت بیشتر شخصیات نے ان آف شور کمپنیز سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ یہ انکشاف پنڈورا پیپرز کا حصہ ہے جو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ایک نئی عالمی تحقیق میں ہوا ہے جو دنیا بھر کے 600 صحافیوں کے اشتراک سے کی گئی۔ اس تحقیق نے اس مشکوک آف شور فنانشل سسٹم کو بے نقاب کیا ہے جس سے ملٹی نیشنل کارپوریشنز، امیر، مشہور اور طاقتور لوگوں کو ٹیکس بچانے اور اپنی دولت چھپانے کا موقع ملتا ہے۔تحقیق 14آف شور سروسز فرمز کی ایک کروڑ 19لاکھ خفیہ فائلوں سے آئی سی آئی جے نے لیک کی تھی۔لیک ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے کئی ارکان یا ان کے افراد خاندان کی مختلف ملکوں میں آف شور کمپنیاں ہیں۔اگرچہ آف شور کمپنیوں کے قانونی استعمال بھی ہیں لیکن ٹیکس چوری میں مددگار ان علاقوں کے لوگوں کو بہت دلچسپی ہے کیونکہ ان کے ذریعے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور دوسری غیر قانونی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا ، ان کی اہلیہ اور بہن کی آف شور کمپنی ہے۔
آج پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اِن کے خاندانوں کی آف شور کمپنیوں سے متعلق پاناما لیکس کے پیپرزآجانے کے بعدبھی بڑے افسوس کا مقام یہ ہے کہ اِن حالات میں بھی پاکستان جیسے دنیا کے غریب ترین مْلک میں برسرِاقتدار اور حزبِ اختلاف والے سوائے چیل کی طرح زبانی جمع خرچ کرنے اور ایک دوسرے کے قول و فعل پر کیچڑ اْچھلنے اور گڑے مردے اْکھاڑنے کے سواابھی تک ایسا کوئی احتسابی عمل شروع کرنے یا کرانے یا کوئی مجرموں کو قانونی گرفت میں لانے سے متعلق کچھ کرنے کے حق میں دِکھائی نہیں دے رہاہے جبکہ پاناما لیکس میں حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اہم عالمی شخصیات سمیت 200کے لگ بھگ پاکستانیوں نام شامل ہیں۔ پانامالیکس کے جاری پیپرز میں کئے جانے والے انکشافات کے سارے منظر اور پس منظر میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے تو 9روزکے دوران قوم سے دوسری بار کئے جانے والے اپنے خطاب میں کہاکہ’’ 25سال سے دہرائے جانے والے الزامات کو میڈیامیں اْچھالاجارہاہے مجھے اور میرے خاندان کو کچھ لوگ نشانہ بنارہے ہیں۔
٭٭٭
تبصرے بند ہیں.