کرکٹ کا سیمی فائنل، COP26 کا فائنل

88

تحریر۔ زینب وحید

ویسے تو ان دنوں ٹویٹر پراوپر سے نیچے تک تمام ٹرینڈز کرکٹ کے ہی ہیں کیونکہ پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا ہے جہاں  گیارہ نومبر کو اس کا مقابلہ آسٹریلیا سے ہونے والا ہے،  نیوزی لینڈ کی افغانستان سے فتح کے بعد روایتی  حریف بھارت اور خود افغانستان ایونٹ سے باہر ہو چکےہیں، یوں اب   آنے والے دنوں میں آپ کو مین اسٹریم میڈیا  اور سوشل میڈیا پر  کرکٹ کا ہی تذکرہ ملے گا۔  ریجن کے لحاظ سے  یورپ میں COP26 اور ایشیاء میں کرکٹ ٹرینڈز کرتے نظر آ رہے ہیں۔ میں  امتحانات کی وجہ سے میں گلاسگو ہیں سکی اس لئےپاکستان میں بیٹھ کر ہی امتحانات  کی تیاری کرتی ہوں، میچ دیکھ لیتی ہوں اور ٹویٹر پر COP26  کی آن لائن ایکٹیویٹیز  میں حصہ لیتی ہوں۔ آج کے اس بلاگ کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ COP26 کیا ہے ،  اس کے مقاصد کیا ہیں اور ا ب تک ہم کیا حاصل کر سکے ہیں ؟
COP26 دراصل  مخفف ہے کانفرنس آف پارٹیز کا۔ اس سا  ل برطانیہ 31 اکتوبر سے 12 نومبر تک ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت پارٹیز کی 26 ویں کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے، 26 ویں اجلاس کی مناسبت سے  ہی اس  کو COP26 کا نام دیا گیا ہے۔  اس سال یہ کانفرنس اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہو رہی ہے ۔  اقوام متحدہ کی ویب سائیٹ کے مطابق  COPفیصلہ سازی کی  اعلیٰ ترین باڈی ہے  جس میں یونائیڈنینشز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ (UNFCCC )کے تحت رکن ملک شامل ہیں یا ان کو نمائندگی حاصل ہے۔ COP میں شامل یہ ممالک  کنونشن پر عملدرآمد اپنائے گئے دیگر قانونی انسٹرومنٹس کا جائزہ لیتے ہیں، اس کے علاوہ یہ حکومتیں ادارہ جاتی اور انتظامی اقدامات  سمیت کنونشن پر موثر عملدرآمد کے لئے ضروری فیصلے بھی کرتی ہیں ۔ تو لب لباب یہ ہے کہ  COP26 کا مقصد دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کا سدِباب کرنا ہے۔
COPکا سالانہ اجلاس ہوتا ہے۔1992 میں  پہلی COP ہوئی جس میں 154 ممالک  شامل تھے اور  بعد میں مزید 43 ملک شامل ہو گئے۔  1995 کے بعد سے یہ کانفرنس ہر سال ہوتی ہے، لیکن سن دو  ہزار  میں کوویڈ کی وجہ سے اجلاس نہیں ہو سکا۔پہلا اجلاس 1995 میں برلن  میں، دوسرا یعنی 21COP پیرس میں ہوا تھا  جس میں پیرس ایگریمنٹ طے کیا گیا تھا۔ پیرس  معاہدے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کو 2  ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجے تک محدود کیا جائے گا اور ڈیڑھ ڈگری تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا اس ہدف کے حصول کے راستے پر گامزن نہیں ہے۔ چند دہائیوں میں ہی درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد پار کر جائے گا اور صدی کے اختتام سے قبل یہ اضافہ 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ  کی خطرناک ترین تک پہنچ جائے گا۔
اب تک COPکوکافی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں ۔ 2011 سے لے کر 2015 تک طویل مشاورت اور مذاکرات کےبعد پیرس معاہدہ طے پایا تھا۔  یہ ایک تاریخی معاہدہ تھا جس کے تحت  گوبل وارمنگ کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
آخری COP25 یا اجلاس 2019 میں میڈریڈ میں ہوا۔ یہ پہلی میٹنگ تھی جس میں  گریٹا تھن برگ پہلی بار ابھر کر سامنے آئیں ۔”تم نےاپنےکھوکھلے نعروں اور سنہری دنوں کی آس دے کر  میرےخواب چرالئے ہیں، میرا بچپن چھین لیا ہے، میرا  اسکول چھین لیا ہے،  تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے خواب چرانے کی” دھان پان سی  اس نازک سی لڑکی کی گرجدار اور جاندار آواز نے  اقتدار کےا یوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ،  وقت کےبادشاہ اور شہزادے سہم سے گئے، لیکن تمام کوششوں کے باوجود اس سمٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی رہنما ٹھوس اقدامات کرنے یا کرانے کے نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
COP26 کے   کلیدی مقاصد یا گولز کیا ہیں؟ ویسے تو اس سوال کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ سوال کس سے پوچھ رہے ہیں، لیکن مرکزی نقطہ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام ممالک مل کر ایسے اقدامات  پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ  عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ رکھنے کے عزم کی تجدید کی جائے۔
اس کے علاوہ چار اہم ترین منزلیں یا گولز ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔  ان میں زہریلی گیسوں کا اخراج کم سے کم کرنے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات، دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے اقدامات   اپنا کر صدق دل سے عمل کرنا،  ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد کا انتظام (فنانسنگ)، ماحول دوست توانائی کے حصول کے لئے ممالک کے درمیان تعاون بڑھانا، ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی خطرناک گیسوں سے صاف گیس پر منتقل کرنا اور   ایسے ناگزیر اقدامات پر عمل یقینی بنانا کہ ایک علاقے آبادی کی دوسرے مقامات پر ہجرت سے روکا جا سکے۔
کانفرنس کے صدر آلوک شرما  کہتے ہیں کہ COP26 دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی ‘آخری بہترین اُمید’ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ دنیا کو بنانے یا بگاڑنے کا نادر موقع ہے۔ انہوں نے زہریلی گیسز کا اخراج کرنے والے بڑے ممالک سے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر عمل کریں۔ UNFCCC  نے وارننگ دی ہے کہ تمام ممالک زہریلی گیسوں کا اخراج جس حد تک لانے کی تجویزپیش کر رہےہیں ، وہ  تو اُس سطح سے بہت کم ہے جو ماحولیاتی تحفظ کے لئے ضروری ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مطابق، جو کانفرنس کے میزبان بھی ہیں، نئی نسل کے روشن مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی روک تھام کے لئے  تمام ملک اپنے ملک کے اندر اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر فوری اقدامات کریں۔  انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کمیونٹیز ، انفرااسٹرکچر اور قدرتی رہائش گاہوں کی حفاظت کے لیے قدامات کو تیز کرنے کی بحث شروع کی جائے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا جائے کہ وہ ہر سال ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے کم از کم 100 ارب ڈالرجمع کرنے کے وعدے پر عمل کریں،  بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اس کاوش میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔  پیرس رول بک کو حتمی شکل دی جانی چاہیئے تاکہ وہ پیرس ایگریمنٹ پر عملدرآمد کی طرف رہنمائی فراہم کر سکیں۔ گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے کم سطح پر رکھنے  کی منزل بہت دور ہے جس کےلئے پوری دنیا کو مل کر بہت دور تک ساتھ چلنا ہو گا ۔ دنیا بھر میں جو موسم ہر گزرتے دن کےساتھ گرم ہوتا جا رہا ہے،  سطح سمندر بلند ہوتی جا رہی ہے ،گلیشیئرز  پگھل رہے ہیں،  ماحولیاتی نظام  خرابی کی طرف بڑھ رہا ہے اور اثرات شدت اختیار کرتے جا رہےہیں ۔
اس کانفرنس  میں پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے اور دنیا کے بڑے رہنما موجود اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے،  عملی طور پر ہر ملک ایک ہال کے نیچے ہو گا اورایک دوسرے سے روٹھے ملک بھی ایک ہی میز پر بیٹھے ہوں گے۔
ادھر  اقوام متحدہ کے اجلاس  میں ایک باتیں کرتا ہوا  ڈائنا سار دندناتا ہوا داخل ہوا ہے اور  سب سے کہا ہے، گھبرانا نہیں ہے۔ گلاسگو کانفرنس میں ہر روز عالمی رہنما وعدے پر وعدہ کرتے جا رہے ہیں، لیکن شیرنی گریٹا نےپھر کہا ہے کہ بڑی بڑی باتیں کرنا بند کرو، کچھ کرنا ہے تو عمل کرو۔ ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کچھ ڈھنگ کے کام کرو، دنیا بھر کے نوجوانوں کو ایسے مکھن لگانے سے کچھ نہیں ہو گا۔جمعہ کو گلاسکو میں احتجاج کے دوران جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو لاکھوں نوجوان ان کو سننے کےلئے موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں.