عائشہ اکرم کیس کا ڈراپ سین

226

یہ میرے سامنے ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد دوسرا کیس ہے جس میں، میں ”مظلوم“ کو تیزی سے بدترین اور عبرت ناک انجام کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ درست ہے کہ ہم نے عائشہ اکرم کو مظلوم سمجھا، میرے پروگرام اور کالم گواہ ہیں کہ میں نے محتاط رہتے ہوئے جہاں ا س پر مینار پاکستان پر ہونے والے حملے کی مذمت کی وہاں، اسی جگہ، اس کے کردار کی گواہی دینے سے واضح الفاظ میں گریز کیا۔ عائشہ اکرم سے ہمدردی کی بنیاد صرف اور صرف اس پر ہونے والا ظلم تھا جسے اس کے اپنے اوپر خود کش حملے جیسے یوٹرن نے شہرت کے لئے کی گئی منصوبہ بندی ظاہر کر دیا ہے۔
معاملہ اس وقت تک بالکل ٹھیک اوردرست سمت میں تھا جب تک عائشہ اکرم نے اپنے پارٹنر ریمبو کے خلاف ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو ایک درخواست نہیں دی تھی جس میں مینار پاکستان واقعے کی سازش کی ذمے داری ریمبو پر عائد کی گئی۔ اس وقت تک رائے عامہ منقسم تھی جہاں کچھ لوگ اس کے ٹک ٹاک والے کردار کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے وہاں کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے تھے۔ ریمبو کا موبائل پولیس کی تحویل میں جانے کے بعد بہت ساری آڈیو ریکارڈنگز بھی لیک ہوئیں جو دوجمع دو، چا ر کی طرح معاملے کو واضح کرتی ہیں۔ آئیے اب اس معاملے کو دوبارہ شروع سے دیکھتے ہیں کہ چودہ اگست جیسے مقدس دن مینار پاکستان جیسے محترم مقام پر شہرت کے حصول کے لئے ایک ڈرامے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ عائشہ اکرم کہتی ہے کہ وہ منصوبہ بندی ریمبو کی تھی مگر تفتیش کا بنیادی اصول کہتا ہے کہ کسی بھی جرم کا اصل ذمے دار وہ ہوتا ہے جس کو اس سے فائدہ ہو۔ چودہ اگست اوراس کے بعد عائشہ اکرم اور ریمبو کے درمیان بہترین تعلقات تھے، وہ جھوٹ اور ڈرامے کو کامیابی کے ساتھ لے کر آگے چل رہے تھے اور عائشہ نے ریمبو کو اپنا چھوٹا بھائی بھی قرار دے دیا تھا اورا س کے ان پڑھ اور انتہائی غریب ہونے کے باوجود اس کی صلاحیتوں کی تعریفیں کر رہی تھی۔ سو یہ تصور کرنا ممکن ہی نہیں کہ اس پلاننگ سے عائشہ اکرم لاعلم تھی بلکہ یہاں ریمبو سچا نظر آتا ہے کہ یہ منصوبہ بندی عائشہ ہی کی تھی اوراسی کے لئے تھی۔
آڈیو لیکس واضح کرتی ہیں کہ عائشہ اور ریمبو کے درمیان معاملہ اس وقت خراب ہوا جب موصوفہ ایک ’سیلیبریٹی‘ بن گئیں اور ان کے ساتھ بڑے بڑے پیسے والوں کے تعلقات بن گئے۔ریمبو کے عائشہ سے تعلقات تھے اور وہ اس پر شادی شدہ ہونے کے باوجود صرف اپنا حق سمجھتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ عائشہ نے ایک پیسے والے ٹک ٹاکر کے ساتھ مل کر اپنا پورا یوٹیوب چینل اورپروڈکشن ہاوس ڈیزائن کر لیا اور زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنے لگی۔ یہ بات ریمبو کے لئے ناقابل برداشت تھی اور سمجھ رہا تھا کہ عائشہ نے اسے چھوڑ دیا ہے، اسے تباہ کر دیا ہے۔اسے وہ دن اور راتیں یاد آتے تھے جن میں وہ آپس میں ہرطرح کی ویڈیوز بناتے تھے۔ اس کی آڈیو لیک کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ شدید رقابت اور ذہنی دباو کا شکار تھا یوں اس نے عائشہ کی ویڈیوز ان لوگوں تک بھی پہنچانے کی دھمکی دی جس کے ساتھ اس کے تازہ مراسم قائم ہوئے تھے۔ ریمبو اس سے قبل بھی اس کی کچن میں چائے بناتے اور واش روم میں شاور لیتی ہوئی ویڈیوز لیک کر چکا تھا مگر عائشہ چاہتی تھی کہ ریمبو سے بھی تعلقات خراب نہ ہوں مگر ساتھ ساتھ وہ اس کی ایک خاوند کی طرح لگائی ہوئی پابندیاں بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔یہی وجہ تھی کہ اس نے ریمبو کو ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ شوٹ کرنے کی دعوت دی مگر ریمبو جذباتی ہوچکا تھا، طیش میں آ چکا تھا۔ ریمبونے وہ تمام ویڈیوز عائشہ کے نئے پارٹنرز کو بھییج دیں جس نے عائشہ کو مالی نقصان کا اندیشہ بھی پہنچایا اور غصہ بھی دلایا۔ اب عائشہ نے اس کا انتقام لینا تھا جس کا طریقہ اس نے یہ ڈھونڈا کہ ریمبو اورا س کے ساتھیوں کے خلاف پولیس کو درخواست دے دی جو ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا، ایک خود کش حملہ تھا جس کی زد میں وہ خود بھی آ گئی ہے۔
بری نیت او ربرے کام کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے، غصہ کبھی انسان کو عزت اور سہولت کی طرف نہیں لے کر جاتا۔ عائشہ اکرم ابھی تک حکومت کی سرپرستی اور پولیس کے تعاون کے ساتھ بہت کامیابی سے کھیلتی چلی آئی ہے مگر اب وہ ایک مختلف صورتحال میں پھنس گئی ہے۔ پہلا مقدمہ یہ ہے کہ اگریہ سب کچھ منصوبہ بندی کا حصہ تھا تو وہ بھی اس کا حصہ تھی، اسے اس سے باہر نہیں رکھا جا سکتا لہذا اس پرملک کے ایک محترم مقام پر ڈرامہ کرنے اور اس کے ذریعے ملک کی عزت سے کھیلنے پر سنگین ترین الزام بنتا ہے۔ اس واقعے کے بعد غیر ملکی باالخصوس بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کہ یہ ملک عورتوں کے لئے محفوظ نہیں ہے۔ اس پر دوسرا الزام ان ویڈیوز کا بنتا ہے جو اس نے ریمبو کے ساتھ مکمل رضامندی سے بنوائیں۔ اب تک سامنے آنے والی کسی ویڈیو میں کسی بلیک میلنگ، زور زبردستی یا دھوکہ دہی کا شائبہ نہیں ملتا۔ ایسی ویڈیوز بنوانا اور انہیں شہرت کے لئے وائرل کروانا دوسرا جرم ہے جس پر پولیس نے لیگل ڈپیارٹمنٹ سے رائے بھی طلب کر لی ہے۔ تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ اس نے جہاں میڈیا کی ہمدردیاں سمیٹیں وہاں کچھ اینکرز اور دوسرے لوگوں سے پیسے بھی اینٹھے جن میں سے ایک صاحب اس وقت ان کے خلاف سوشل میڈیا کمپین چلا رہے ہیں۔
ہماری عائشہ اکرم سے تمام تر ہمدردی کی بنیاد ان پر ہونے والا ظلم و ستم تھا لیکن اگر وہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا تو اس ہمدردی کی بنیاد ختم ہوجاتی ہے۔ میں بطور صحافی سمجھتا ہوں کہ میڈیا کو ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوناچاہئے اوراس کے لئے اس کے رنگ، نسل اور مذہب کے ساتھ ساتھ کریکٹر سرٹیفیکٹ کا انتظار نہیں کرنا چاہئے مگر عملی طور پر ہوتا کچھ اور ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے رپورٹنگ کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی کھلی کچہری میں بارہ، تیرہ برس کی لڑکیاں دیکھیں جن کادعویٰ تھا کہ ان سے زبردستی کرتے ہوئے انہیں حاملہ کر دیا گیا ہے اور جب تحقیق ہوئی تو علم ہوا کہ یہ ایک گروہ ہے جس کاکام ہی ایسے الزامات سے پیسے بٹورنا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف حکومت میں حافظ آباد کے ایک شخص نے دہائی دی کہ چوہدریوں نے (جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر تھے) اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دئیے ہیں جب تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ ہاتھ تو ٹوکے میں غلطی سے کٹے مگر اس شخص نے ہاتھ کٹنے کے بعد پانچ لاکھ روپے لئے اوراس کے ساتھ ہی اس خاندان کی لڑکی کا رشتہ بھی بطور معاوضہ مانگ لیا جس پر لڑائی ہوگئی۔ ہاتھ کٹنے والا شخص لاہور پریس کلب ظلم کی جھوٹی کہانی لے کر پہنچ گیا۔ میں اس معاشرے میں رہتا ہوں جہاں مظلوم نظر آنے والے بھی بڑے ظالم ہیں، دھوکے باز ہیں، فراڈئیے ہیں۔
چلتے چلتے ریمنڈ ڈیوس کیس کا حوالہ بھی دہراتا چلوں کہ میں نے ان دونوں نوجوانوں کو گولی لگنے کے عین بعد سروسز ہسپتال میں دیکھا تھا۔ وہ شکل، جثے اور حلیے سے ہی لٹیرے لگ رہے تھے مگر چونکہ مقابلے میں ایک امریکی ایجنٹ تھا لہذا وہ قومی ہیرو بن گئے۔ ریاستی اداروں کی مدد سے ان کے لواحقین کو کروڑوں روپے دلوائے گئے اور ان پیسوں نے لٹیروں کے خاندانوں کو کس طرح تباہ کیا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔

تبصرے بند ہیں.