ڈاکٹر عبدالقدیر خان…… کاش وہ سترہ سال قبل رخصت ہو جاتے!

122

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پاکستان کو انہوں نے کیا دیا؟ اور پاکستان کے کار مختاروں نے اس کا صلہ کیسے دیا؟ یہ باتیں اب بے معنی ہو چکی ہیں۔ کہانی ختم ہو گئی ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب کا معاملہ اپنے اللہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اچھے خاصے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا خلاصہ اپنے ایک شعر میں پیش کیا ہے جو آج کل ہر کہیں یاد کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیر۔۔۔۔۔ستم ظریف مگر کو فیوں میں گزری ہے۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ احساس کہ ان کی زندگی  "کوفیوں ”  یعنی احسان فراموشوں،وعدہ خلاف اور بے وفا لوگوں میں گزری ہے۔ دراصل اس سلوک کی طرف اشارہ ہے جو مختلف حکمرانوں نے ان کے ساتھ کیا۔ ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی ایک بڑے مقصد اور مشن کی نذر کر دی ہو اور پاکستان کو واقعی ایک مضبوط دفاعی قلعہ بنا دیا ہو، اس کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا، اسے ہر اعتبار سے ناروا اور توہین آمیز ہی کہا جا سکتا ہے۔
ذرا تصور کیجئے کہ ہمیں کس طرح کے دشمن سے پالا پڑا ہے۔ بھارت نے تقسیم ہند کا فارمولا کسی نہ کسی طرح قبول تو کر لیا لیکن پاکستان اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ بھارت کے لیڈر اکھنڈ بھارت کے خواب سے کبھی دستبردار نہ ہوئے۔ ہمیں یکے بعد دیگرے تین جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970 کی جنگ میں بھارت کو بڑی کامیابی ملی جب وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہو گیا اور بڑے مشکل حالات میں جان کی بازی لگا دینے والے جانبازوں کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ ذوالفقار  علی بھٹو نے بچے کھچے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو ہم ایک ہاری ہوئی قوم کے طور پر زبردست احساس کمتری کا شکار ہو چکے تھے۔ بھارت سے شکست کھانا اور مشرقی پاکستان کو کھو دینا کوئی معمولی زخم نہ تھا۔ ایسے میں ملک کی نئی سیاسی قیادت نے سوچا کہ اگر ہمیں ایک باعزت اور خوددار قوم کے طور پر زندہ رہنا  ہے تو ملکی دفاع کے حوالے سے بھارت کی بالا دستی ختم کرنا ہو گی۔ اس کے دو ہی طریقے تھے۔ پہلا یہ کہ ہم روائتی جنگ کے لئے روائتی ہتھیاروں میں بھارت کی برابری کریں۔ لیکن یہ راستہ ہمارے لئے ممکن نہ تھا۔ ہمارے وسائل کم تھے۔ اپنے سے پانچ چھ گنا بڑے ملک کے ساتھ روائتی اسلحے کی دوڑمیں شامل ہو جانا ہمارے لئے نا ممکن تھا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ پاکستان  ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے اور اپنی اس صلاحیت کو اپنے دفاع کے لئے ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر استعمال کرئے۔
ذولفقار علی بھٹو نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور یہاں سے ڈاکٹر عبدالقدیر کے اس عظیم مشن کا آغاز ہوتا ہے جس نے پاکستان کو ناقابل تسخیر اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قوم کا سب سے بڑا ہیرو بنا دیا۔ پھر وہ محسن پاکستان کہلانے لگے۔ بلا شبہ ان کے ساتھ ماہرین کی ایک بڑی ٹیم تھی۔ ایٹمی توانائی کے حصول کے کئی شعبے تھے۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے یقینا سب کا کردار بھی تھا لیکن اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر صاحب ہی تھے اور جب بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کی بات چلی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہی اس کا معمار اعظم خیال کیا گیا۔ پاکستان کو اور ڈاکٹر صاحب کو اس مشن کی تکمیل میں کیا مشکلات پیش آئیں، ساری دنیا، بالخصوص بھارت، امریکہ، برطانیہ جیسے ممالک کی شدید مخالفت کے باوجود یہ پروگرام کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچا، شاید یہ تاریخ کبھی بھی پوری تفصیل کے ساتھ نہ لکھی جا سکے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی اس مشن کے لئے وقف ہو کے رہ گئی۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ہی ان کی زندگی بن گئی۔
ہمارے ہاں ایسے قومی مشن نہ ہونے کے برابر ہیں جن کے بارے میں پوری قوم، تمام سیاسی جماعتیں اور ہماری روائتی اسٹبلشمنٹ واقعی ایک پیج پر دکھائی دیں۔ لیکن ایٹمی صلاحیت کا حصول ایسا قومی ہدف تھا جس کے لئے ہر ایک نے اپنی ہمت، توفیق اور صلاحیت کے مطابق کردار ادا کیا۔ ذولفقار علی بھٹو، غلام اسحق خان، جنرل محمد ضیا الحق، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور فوج کے دیگر سپہ سالاروں نے بھی اس پروگرام کی سرپرستی کی۔ بالآخر وہ دن آیا جب نوازشریف نے تمام عالمی دباو ئ، دھمکیوں اور لالچ کو نظر انداز کرتے ہوئے 28 مئی 1998 کو چاغی میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو بتایا کہ اب پاکستان کو تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور کا درجہ حاصل ہو گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس خواب کو تعبیر میں بدل دیا جو چوبیس سال سے ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب قوم کے بہت بڑے محسن کے طور پر ابھرے۔ دنیا نے دیکھا کہ اس کے بعد (کارگل کی مہم کے باوجود) بھارت کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کو کئی اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ جہاں بھی جاتے، قوم ان کے سامنے عقیدت و محبت سے بچھ بچھ جاتی۔ پھر پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دوران، جنوری 2004 میں رسوا کن دور بھی آیا جب ڈاکٹر صاحب کو امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے مجرم قرار دے دیا گیا کہ انہوں نے بعض دوسرے ممالک کو جوہری ساز و سامان فراہم کیا ہے۔ کوئی عوامی جمہوری حکومت ہوتی تو شاید اس کا ردعمل مختلف ہوتا لیکن مشرف اپنے ذاتی مفادات کے لئے غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیل رہا تھا۔ اس نے لعنت ملامت کا یہ طوق ڈاکٹر صاحب کے گلے میں ڈالا اور انہیں ٹی وی پر لا بٹھایا گیا۔ ایک لکھا ہوا "اعتراف گناہ”، محسن پاکستان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا جو انہوں نے کسی نہ کسی طرح پڑھ دیا۔ اس دن کے بعد سے وہ اپنے گھر میں قید کر دئیے گئے۔ اسی قید اور بے چارگی کے عالم میں وہ اس ناشکری دنیا سے رخصت ہو گئے۔
کوئی انسان کمزوریوں سے خالی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی فرشتہ نہ تھے۔ ان کے دل میں صدر پاکستان بننے کی خواہش بھی پیدا ہوئی۔ انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنا کر الیکشن میں آنے کا تجربہ بھی کیا۔ تقریبا تمام وزرائے اعظم سے وہ نالاں رہے۔ شدت سے محسوس کرتے رہے کہ ان کی نا قدری کی گئی۔ حالانکہ قوم نے ان کوجو مقام دیا وہ شاید ہی کسی اور کو دیا ہو۔
اکثر پڑھتے ہیں کہ قائد اعظم محمدعلی جناح کو اللہ تعالیٰ نے بہت جلد دنیا سے اٹھا لیا۔ وہ کچھ سال اور زندہ رہتے تو پاکستان کی ایک مضبوط آئینی اور جمہوری بنیاد پڑ جاتی۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ نے انہیں عزت و اکرام سے اٹھا لیا ورنہ نہ جانے ان پر کیا گزرتی۔ زندگی اور موت کا ایک دن مقرر ہے۔ اس کی حکمتیں میرا رب ہی جانتا ہے۔ لیکن یونہی خیال سا آتا ہے کہ اللہ پاک اگر ڈاکٹر عبدالقدیر کو جنوری 2004 سے پہلے ہی اٹھا لیتا تو شاید انہیں   "اعتراف جرم”   والا دن نہ دیکھنا پڑتا اور  "کوفیوں ”  کے درمیاں مزید سترہ برس گزارنے کی اذیت سے بھی بچ جاتے۔

تبصرے بند ہیں.