حکومت کا مسلسل اصرار ہے کہ اس کے دورمیں قو می احتسا ب بیو رو جسٹس(ر) جا وید اقبا ل کی سر کر دگی میں کر پشن کے ذ ریعے لو ٹے گئے 539ڈالر قومی خز انے میں وا پس لا نے میں کا میا ب ہو چکا ہے۔ جب کہ اپو زیشن جما عتیں اس خطیر ر قم کی تفصیلا ت طلب کر رہی ہیں۔ غیر جا نبدار ہو کر دیکھا جا ئے تو پو زیشن کا مطا لبہ مکمل طور پر جا ئز ہے۔ تا ہم حکو مت اس دعویٰ کا فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے چیئر مین نیب کی ملا زمت میں اضا فہ کر نا چا ہ رہی ہے۔اس سلسلے میں صدرِ مملکت نے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے تحت نیب کے موجودہ چیئرمین اپنی چارسالہ مدت مکمل ہونے کے بعد بھی اپنے جانشیں کے تقرر تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔ ترمیمی آرڈیننس میں چیئرمین نیب کی تعینات کے لیے قائد حزبِ اختلاف سے مشاورت کی شق بھی شامل ہے اور اگر وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف میں اس معاملے پر اتفاق نہ ہوسکے تو صدرمملکت معاملہ چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے قائم بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔ اس ترمیمی آرڈیننس پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں مشاورت کے حوالے سے کنفیوژن برقرار ہے اور متضاد بیانات آتے رہتے ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ حکومت اس معاملے میں حزب اختلاف کے ساتھ بات کرے گی، کبھی کہا گیا ایسا نہیں ہوسکتا۔ ابھی ایک روز پہلے وزیراعظم کے حوالے سے یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ حزبِ اختلاف سے بات کی جائے گی۔ وفاقی وزیرقانون نے بھی اسی قسم کی بات کی مگر کابینہ ہی کے ایک رکن نے اس امکان کو مسترد کردیا۔ اہم تقرریوں کے بڑے فیصلوں میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینے میں پس و پیش کا یہ پہلا معاملہ نہیں۔ اگرچہ حکومت نے اس خصوصی معاملے میں قائد حزبِ اختلاف کے مقدمات کو بات چیت سے انکار کی بنیاد بنایا، مگر وہ بہت سے معاملات جن میں ایسی کوئی ذاتی وجہ رکاوٹ نہیں ہوتی وہاں بھی حکومت اور حزبِ اختلاف میں مشاورت کا کوئی مثبت اور نتیجہ خیز عمل ممکن نہیں ہو پاتا۔ اس میں اگر کوئی استثنائی صورت ہے تو وہ ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافے یا استحاق کے تحفظ کے معاملات ہیں کہ جہاں حکومت اور حزب اختلاف سارے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ مگر اہم قومی معاملات میں اتفاق کی یہ صورت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ چیئرمین نیب کے عہدے کی آئینی مدت میں توسیع کے معاملے سے قبل الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دیگر انتخابی اصلاحات کا معاملہ گرم تھا، مگر پارلیمان کے دھڑے یہاں بھی کوئی معنی خیز صلاح مشورہ نہیں کرسکے اور بات ایک اہم قومی ادارے کے خلاف وزرا کے جذباتی بیانات تک جا پہنچی۔ اگر پارلیمان کی سطح پر حکومت اور حزب اختلاف میں اس حوالے سے کوئی مشاورت ہوئی ہوتی اور کوئی ایسا نظام وضع کرلیا جاتا جس سے باہمی اختلاف کے خاتمے کا امکان پیدا ہوسکتا تو ایسا ممکن تھا کہ وزرا کے جذباتی اظہار کی نوبت نہ آتی اور نہ ہی حکومت کو اس جگ ہنسائی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔ دنیا بھر کے کامیاب جمہوری نظام سے ہم جو سبق سیکھ سکتے ہیں، ان میں اہم ترین یہ ہے کہ کہ جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا وجود ماننا پڑتا ہے۔ حکمران جماعت یا اتحاد اقتدار پر فائز ہونے کی وجہ سے قومی فیصلوں کا بنیادی ذمہ دار ہوتے ہیں مگر اپوزیشن کو بھی ایک اہمیت اور وزن حاصل ہوتا ہے جبکہ تمام قومی فیصلوں پر پارلیمان میں مباحثے ہوتے ہیں اور فیصلہ سازوں کو زیربحث معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اہم فیصلے پارلیمان میں زیر بحث آنے سے پہلے
سوشل میڈیا، بیانات اور انٹرویوز میں ڈسکس ہوتے ہیں جبکہ پارلیمان کے اجلاس کا زیادہ تر وقت قومی مقاصد سے بعید گفتگو، الزام تراشی اور دشنام طرازی کی نذر ہوجاتا ہے۔ اکثر اس طرح کی صورت حال پر لوگ یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ پارلیمان کے اجلاس پر قومی سرمایہ خرچ ہوتا ہے مگر اس کا حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔
لیکن بات صرف پارلیمانی اجلاس پر خرچ ہونے والے روپے پیسے کی نہیں، اس جمہوری عمل سے وابستہ توقعات کی بھی ہے جو اس اعلیٰ ادارے سے پوری نہیں ہوتیں۔ ان توقعات کی ناکامی بذات خود ایک بڑا خسارہ ہے جس کا روپے پیسے میں حساب نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ملک اور قوم کی تقدیر، نمو اور مستقبل کے خوابوں کے پورا ہونے اور توقعات کے محروم رہنے سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ ہمارے حکمران ماضی کے حکمرانوں کی اور تو سبھی خرابیاں بیان کرتے ہیں، شاید کوئی اس کا ذکر بھی کرے کہ وہ اپنے دور میں قومی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کے فروغ میں سنجیدہ نہیں تھے۔ حزب اختلاف اور حکومت ندی کے دو کناروں کی طرح تھے جن میں رابطے کا کوئی مضبوط پل قائم نہیں ہوا تھا۔ ایسے الگ تھلک ماحول میں بدعنوانی کے فروغ کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کیونکہ کسی کے سامنے جواب دہی کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم تاریخ سے سبق سیکھ سکتے ہیں مگر اصلاح کے لیے قدم لمحہ موجود ہی میں اُٹھانا ہوتا ہے؛ چنانچہ موجودہ حکومت کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ چاہے اور عزم کرے تو اس روش کو بدل سکتی ہے۔ اس کا بطور سیاسی جماعت اسے جو فائدہ ہوگا وہ اپنی جگہ مگر قومی سطح پر ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی طاقت درپیش مسائل سے نمٹنے میں ضرور مدد کرے گی۔ حکومت کی جانب سے سیاسی مکالمے کا ذکر کئی بار ہوچکا ہے اور ہر بار یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس جانب ضرور آگے بڑھے گی مگر پیش رفت سے پہلے حکومتی صفوں میں پس وپیش اور بے یقینی کی فضا در آتی ہے، یوں لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں فیصلہ نہیں کر پارہی۔ کیا یہ حکومت کے اندر خیالات اور نقطہ نظر کے اختلاف کی وجہ سے ہے؟ جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت کی ایک اہمیت ہے۔ اس کے نہ ہونے کے جو نتائج ہیں وہ ہم انتخابی اصلاحات یا اہم عہدوں پر تعیناتیوں اور دیگر اہم فیصلوں میں دیکھ ہی رہے ہیں۔ کیا یہ روش تبدیل ہونے کی امید کی جاسکتی ہے؟
اوپر بیان کی گئی بحث سے قطعِ نظر اگر ایک عا م شہر ی کے نقطہِ نظر سے اس تما م تر صو رتِ حا ل کا جا ئزہ لیا جا ئے تو صاف محسو س ہوگا کہ ہمارا آئین، آ ئین نہیں بلکہ مو م کی نا ک ہے جس کو ہما رے کر تے دھر تے جس جا نب چا ہیں، اپنی مرضی سے مو ڑ سکتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.