پینڈورا کا ڈھنڈورا

113

سردار جی میلہ دیکھنے گئے تھے۔ بھیڑ میں دھکم پیل کے دوران سر سے پگ (پگڑی) گر گئی۔ پگ کیا گری پورا دھرم برشٹ ہوگیا۔ آہ و زاری کرتے واپس آئے چہرے پر بارہ بجے ہوئے تھے۔ بیلیوں (یاروں) نے پوچھا سردار جی میلہ کیسا لگا جلے بھنے لہجے میں بولے۔ میلہ کیا تھا پگ اتارنے کا بہانہ تھا، پانامہ لیکس سکینڈل منظر عام پر آیا۔ 445 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا شور اٹھا مگر پورا میلہ ایک وزیراعظم کی پگ اتارنے کے لیے سجایا گیا، پانامہ سے پگ نہ اتری تو اقامہ سے اتر گئی۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنی۔ اب تک لوگ حیرت زدہ ہیں۔ ایک کمپنی (وہ بھی اپنے بیٹے کی فرم) سے پیسے لینے یا نہ لینے پر اتنا غصہ، وزارت عظمیٰ گئی، تا حیات نا اہلی گلے کا ہار بنی، مقدمات کا لا متناہی سلسلہ گاڈ فادر اور سیسیلین مافیا کے خطابات، قضا و قدر کے فرشتوں نے اعمال اور بد اعمالیوں کے دفتر کھول دیے، نیک اعمال ضائع، بد اعمالیوں پر سزائیں۔ 10 سال قید سنانے والا اللہ کے پاس چلا گیا۔ جاتے ہوئے اعتراف کر کے گیا،سزا باقی جائیداد نیلام، اشتہاری قرار،”مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے“ شہر سیاست کی ایک محترم شخصیت سراج الحق نے جو اس وقت عمران خان کی طرح وزیر اعظم کے مخالف تھے نے بار بار پوچھا پانامہ لیکس میں ملوث باقی 444 کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ تین سال بعد بھی جواب ندارد۔”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے“۔ فہرستیں کھو گئیں۔ رجسٹروں کو دیمک کھا گئی۔ فائلیں سیلاب کی نذر، سب کی پگڑیاں سلامت، مگر فرد واحد کی 70ء کی فائلیں محفوظ۔ پیدائش سے اب تک کا ریکارڈ محفوظ، چھان بین جاری۔ 23 کروڑ انسانوں میں کسی سے دشمنی نہیں۔ صرف ایک پگ گرانی تھی۔ سوگرا دی گئی۔ یہ الگ بات کہ جس کے سر پر سجائی گئی وہ سر عزیز اقتدار کی پگ کی حرمت تقدس اور عوام کی امنگوں کی حفاظت نہ کرسکا۔ بڑا مشکل کام ہے۔ اقتدار کے خوگروں کو اپنے انتقامی جذبات بھلانا پڑتے ہیں۔ پتا نہیں ریاست مدینہ کے والی ہمارے ماں باپ آپ پر قربان دنیا کی محترم ترین ذات ”خالق کا بندہ خلق سے اعلیٰ کہیں جسے“ ختمی مرتبت نبی رحمت ﷺ”سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں“۔ تین سال پہلے کا ذکر لیڈر تقریر کرتے ہوئے کنٹینر سے گرے۔ ہسپتال میں تھے ملک کا وزیر اعظم لیڈر کی عیادت کو پہنچ گیا۔ بعد میں ان کے گھر جا کر بھی عیادت کی۔ اپنا اپنا ظرف،آقاؐ کی سنت پر عمل نہیں ریاست مدینہ کی بنیاد کیسے پڑے گی۔ انتقام اور نفرت رگ رگ میں بھری ہے۔ اپوزیشن لیڈر سے صدر کے مذاکرات حلال، وزیر اعظم کے مذاکرات حرام، مدینے کے والیؐ کا راستہ سیدھا سچا باقی سارے دعوے جھوٹے، دل و دماغ اور سینہ محبتوں کے جذبات سے خالی بات کیسے بنے شیشوں کے گھروں میں بیٹھے ہیں مگر کب تک ”کچھ خبر بھی ہے تم کو کانچ کے مکاں والو، کانچ کا مقدر تو ٹوٹ کر بکھرنا ہے، پانامہ لیکس میں مذکور 444 ناموں کا کیا بنا۔ سراج الحق کو اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔ سپریم کورٹ جانے کو کہہ رہے ہیں۔ چلے جائیں شاید انتقام
اور احتساب کا فرق واضح ہوسکے، اور اب تین سال بعد پینڈورا پیپرز کا ڈھنڈورا، بتایا گیا ایک کروڑ 19 لاکھ فائلیں کھنگالی گئیں، 600 رپورٹرز نے دو سال تحقیقات کی۔ 117 ممالک کے 50 میڈیا اداروں کے 600 سے زائد رپورٹروں نے دنیائے صحافت کے سب سے بڑے سکینڈل کو بے نقاب کردیا 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام، آف شور کمپنیاں کھولے بیٹھے ہیں۔ ایک دو آف شور کمپنیوں پر پگ اتر گئی تھی یہاں چارچار کمپنیاں پوچھا تو جواب ملا۔
قانونی تھیں بند کردیں کوئی اکاؤنٹس نہ ٹرانزیکشن ٹائیں ٹائیں فش، جن وزیروں کو پہلے سے علم ہوگیا انہوں نے استعفیٰ دے دیے تین سال وزارت میں رہے کافی نہیں؟ تحقیقات ہوگی؟ اس کے لیے کمیشن،کمیشن کے ساتھ سیل، سیل کے ساتھ کمیٹی ایف آئی اے معاونت کرے گی۔ سارے اپنے، احتساب بھی سلیکٹڈ، قوم کو ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا، نیب اچھے بھلوں کی تحقیقات کر رہا تھا۔ اپوزیشن کا تو جینا حرام کر رکھا تھا۔ پینڈورا پیپرز کی تحقیقات اس کے ذریعے کیوں نہیں، ایک آرڈی ننس کے ذریعے نیب کے اختیارات محدود کردیے گئے۔ اپوزیشن کے خلاف تحقیقات تک محدود اس سے آگے راستہ ممنوع، فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔ آف شور کمپنیاں کھولنے والوں میں علیم خان، فیصل واوڈا اور بہت سے چھوٹے بڑے شامل ایک بات طے پینڈورا پیپرز سب جھوٹے اپنے بندے سچے، جھوٹے ہو ہی نہیں سکتے۔ جو جھوٹا کہے وہ اپوزیشن کا گماشتہ، آج کل اسی قسم اور برانڈ کا احتساب رائج ہے۔ 600 رپورٹروں کی محنت اکارت، آف شور کمپنیاں قانونی بھی تو ہوتی ہیں۔ اب قانونی اور غیر قانونی کی چھان بین بھی ہوگی پگ اتارتے ہوئے کیوں نہ ہوئی؟ اپنے سب سے با خبر وزیر شیخ رشید نے تو اشاروں کنایوں میں بتا دیا کہ تحقیقات ہوگی لیکن پینڈورا پیپرز ٹائیں ٹائیں فش، یعنی کچھ نہیں ہوگا۔ اپنے بندوں کے خلاف اپنے بندوں سے تحقیقات یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے۔ آئندہ دو سال کا پلان کیا ہے۔ نیا آرڈی ننس سارے این آر اوز کی ماں، سارے وزیر مشیر ہر قسم کی بد عنوانیوں سے بری، بی آر ٹی میں 4 ارب 32 کروڑ کے گھپلے، مالم جبہ اور دیگر سکینڈلز کی فائلیں گم،کیا یہ سچ ہے کہ حکومت نے ترمیمی آرڈی ننس کے ذریعے خود کو این آر او دے دیا مگر یہ تو اپوزیشن والے کہتے ہیں جن سے بات کرنا کجا خیال دل میں لانا بھی حرام ہے۔ ماہرین قانون تو قانون کی زبان بولتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب آرڈی ننس کے ذریعے نہ صرف خود کو بچایا گیا بلکہ چیئرمین کو توسیع دینے کا واحد مقصد اپنی بقا اور دفاع تھا۔ نئے چیئرمین کی ضرورت ہی نہیں ما شاء اللہ موجودہ چیئرمین اطمینان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ آئندہ دو سال میں اگر تمام اپوزیشن لیڈر الجھی الجھی سانسوں کے ساتھ اندر ہوجائیں گلی میں اکیلا مرزا یار پھرے تو الیکشن مشین سے ہوں یا مینوئل جیت اپنی یقینی ہوگی۔ اپوزیشن کہاں ہے؟کاش اپوزیشن ہوتی تو اپنے خوشحال وزیروں کو بھی لگ پتا جاتا۔ وائے ناکامی اپوزیشن لیڈر بہت ہیں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ لیکن اپوزیشن نہیں ہے ان بولیوں سے وزیروں مشیروں اور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، حالانکہ ”ستمگروں کی حکومت پہ ناز ہے جن کو، فضائے دہر میں اک دن بہائیں گے آنسو“۔ دو سال بعد کرپشن کرپشن نہیں چلے گی، لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر مانگیں گے تب کیا ہوگا؟

تبصرے بند ہیں.