ایں وقتِ قلمدان نیست

221

ایسا بھی ہوتا ہے ہزاروں باتیں دل سے انگلیوں کی پوروں تلک مچلتی، دھمکتی، کرلاتی ہیں مگر مصلحت زمانہ اسے لکھنے نہیں دیتی بیک گراؤنڈ میوزک کی طرح صداآتی رہتی ہے نہیں ”ایں وقت قلمدان نیست“
حالانکہ میرتقی میر نے اس حکم پر ایک مسکراہٹ کو اُچھالا اور نواب سے کہا کون سا وقت قلمدان کا ہوتا ہے وہ تو ایک بے جان آلہ تحریر ہے وقت تو لکھنے والے کی جاگیر ہے کہ وہ کب لکھتا ہے۔
تمام احوال ”گزران“کی چکی سے پس کر نکلتا ہے لہٰذا اس کا ایک ایک پل فراموش نہیں کیا جاسکتا ہم ”وقت“ کو ”الانگھ“کر نہیں آتے گزار کر آتے ہیں، اِس لیے گئے وقت کے لوٹ آنے کی خواہش بے کار ہوتی ہے کیا ہم دوبارہ اس وقت میں جانا چاہیں گے جس میں کم عقلی کم فہمی اور ناسمجھی کے باعث دھوکے کھائے بچپن کی بیماریاں سکولوں میں ملی سزائیں کم علمی کے باعث احساس ہائے کمتری جو بے نیازی ان سب سے نپٹ کر ٹھہری ہوئی عمر میں جاکر ہوتی ہے اس کا جواب نہیں، حتیٰ کہ گزشتہ کے آلام احمقانہ لگنے لگتے ہیں۔
”ایں وقت قلمدان نیست“ کا اشارہ مؤرخ کی طرف زیادہ ہے ماضی میں تو شاہ کا مصاحب مقرر کردہ ایک ہی مؤرخ اور مصور ہوتا تھا مگر اب ایسے کئی ہیں، صحافیوں کی ایک فوج ہے جو اپنے اپنے پسندیدہ نکتہ نظر کو لکھ رہی ہے، یعنی ایک ہی وقت میں آٹھ ایک طرح کی تاریخ رقم ہورہی ہے، کل کی تاریخ بھی ہم تک سو طرح کے مفادات سے ہوکر نکلتی ہوئی ملی تھی جس کی اصل تصویر دیکھنے کے لیے یا اصل سے قریب ہونے کے لیے ہمیں لٹریچرکا سہارا لینا پڑتا ہے بعض مرتبہ ناول، افسانہ اور شعرتاریخ کے گزشتہ ابواب پر مہر لگاتا ہے اور بعض مرتبہ اور کئی فکشن میں پیش کی جانے والی تصویر کی تصدیق کے لیے تاریخ کے ابواب دیکھنا پڑتے ہیں۔
کالم نگاری کے دیگر مقاصد کے علاوہ میں سمجھتی ہوں کہ قارئین کی علمی ادبی تعلیم بھی ہونی چاہیے۔ محسن ایوانوں کی الجھی ہوئی گلیوں اور دروبام سے نکل کر عہد گزشتہ کے زریں ابواب سے بھی ملوانا کالم نگار کا فرض ہے، تاریخ کے بنددروازے اور گزشتہ شان وشکوہ محض احساس برتری نہیں بلکہ نسل نو کو اُکسانے کے لیے بھی ضروری ہے، کیسے کیسے فاتحین گزرے اور کیسی کیسی دستاروں میں پیوند لگے، ……بقول میر تقی میر کے تذکرہ پہلے بھی ہوچکا ……
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھی کسی کا سرپرغرورتھا
یعنی ”کاسہئ سر“ یوں بھی قدموں میں لڑھکتے ہیں کسی تاریخی شعر کا پہلا شعر خیال کو مکمل کرتا ہے ملاحظہ ہو……
کل پاؤں ایک کاسہ ئ سرپرجوآگیا
یکسروہ استخوان شکستوں سے چورتھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھوکسی کا سرپرغرور تھا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لکھنے کاوقت کون سا ہوتا ہے کہ آسائش تو بندے کو لکھنے نہیں دیتی یعنی (اچھا لکھنے) اعلیٰ ادب ہمیشہ سے زوال کی پیداوار ہے بھلے زمانوں میں ہم اکتساب درشنی کرتے تو ضروررہتے ہیں مگر منعکس کرنے کا وقت یا صفحہ قرطاس پر اتارنے کا وقت زوال ہی کا ہوتا ہے، میں نے اپنی کتاب ”خاموشیاں“ کے دیباچے میں لکھا تھا کہ ”ایک وقت میں ہم یا محبت کرسکتے ہیں یا محبت لکھ سکتے ہیں ……“
جب ہم خود زندگی کو جنم دے رہے ہوتے ہیں تب زندگی کے ثمرات ومضمرات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جب زندگی پرورش پاکر تنومند ہوکر ہمارا محاصرہ کرتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ تھی زندگی تب اسے لکھنا ممکن ہوتا ہے۔ وہ بھی محض تخلیق کار کے لیے ایسا نہیں کہ دیہی علاقوں یا درسگاہوں کی مروجہ تعلیم سے وہ لوگوں کو ایسا تجربہ نہیں ہوتا، ہوتا ہے جبھی تو اتنی محاوراتی زبان وجود میں آتی ہے یہ جو ہمیں بات بات پر نصیحت، تجرید اور ہدایت محاورے کے ذریعے دی جاتی رہی ہے تو یہ اسی لوک دانش کا حصہ ہے جس میں خالص عقل نے کام دکھایا ایسی خالص عقل جسے کسی مخصوص قبیلے مسلک یاطبقے کی آلائشیں نہیں لگی جو رٹے اور نوٹس کے بل پر حاصل کی گئی ڈگریوں سے کجا ہے۔
آج تھوڑا سا ادبی کالم لکھتے ہوئے اچھا لگ رہا ہے کہ عوام کی تفریح سیاست کو بنادیا گیا ہے تو اس میں ہمارا بھی  قصور ہے۔
چند دن پہلے دنیا کے براعظم و علاقے دریافت کرنے والوں کے احوال وواقعات سے متعلق مغربی مفکر کی کتاب پڑھ کر حیران تھی کہ دنیا دار لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ دراصل دنیا دریافت کس نے کی تھی۔
ذوق سلیم اوردنیاداروں کے علم کے لیے کبھی ان دقتوں اور تکلیفوں کو ضرور لکھوں گی جو پہاڑوں دریاؤں سمندروں، خلیجوں اور برف میں ٹھٹھرے ہوئے سمندری پانیوں پر سفر کرنے والے کتنی مرتبہ قدرت سے مزاحم ہوکر واپس لوٹے اور کتنی مرتبہ پھر رخت سفر باندھا…… اس حوالے سے اب تو  ان مغربی رائٹرز کے اردوترجمے بھی موجود ہیں جس کا حوالہ بھی دیں گے۔ ……

تبصرے بند ہیں.