اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے اسمبلی میں کہا ہے کہ اگر غریب کی جیب خالی ہے تو پھر بجٹ جعلی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کاروبار کی خراب صورتحال اور کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے سے مشکلات کا شکار عوام کے مصائب و آلام میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں عوام کی اکثریت کے گھروں کا ماہانہ بجٹ ان کی آمدنیوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ آج تک ایسا کوئی بجٹ نہیں آیا جو عوام کی توقعات اور ضروریات کو پورا کر سکے۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے نرخ ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ حکومت نے تیل کے نرخ بڑھا دئے ہیں جب کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی ہو گا۔ عام طور پر پاکستان میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عام آدمی کے لئے بجٹ کے حوالے سے اصل اہمیت اعداد و شمار، دعوؤں،اور وعدوں کی نہیں ان اثرات و نتائج کی ہوتی ہے جو بجٹ کے نفاذ سے ظہور میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاستدان عوام کو لبھانے کے لئے بڑے خوش کن وعدے وعید کرتے نظر آتے ہیں جو کہ حقیقت میں قابل عمل نہیں ہوتے ہیں مگر ہمارے عوام اتنے سادہ واقع ہوئے ہیں کہ وہ ان کی کہی گئی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور انہیں ہی اپنا مسیحا جان لیتے ہیں اور انتخابات میں کامیابی دلا دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل عوام سے ایسے ایسے وعدے کئے تھے کہ بڑے بڑے تجزیہ کاروں پر بھی حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ جیسے کہ بے روزگاروں کے لئے ایک کروڑ ملازمتیں، بے گھر افراد کے لئے ایک لاکھ گھروں کی تعمیر، ملک سے مہنگائی اور کرپشن خاتمہ۔ اب اسے برسرِ اقتدار آئے ہوئے تین سال ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہو سکا اور نہ ہی آگے ان وعدوں کے پورا ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ کرپشن وہ ناسور ہے جس کی موجودگی میں کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ کرپشن وہ دیمک ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کو لوگوں نے کرپشن کے خاتمے کے نام پر ووٹ دیئے تھے لیکن اس کے برسرِ اقتدار آنے کے
بعد خود اس کے اپنے لوگ کرپشن میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ اربوں روپے کے مالی سکینڈلز نکلتے چلے آ رہے ہیں۔ جو بھی اسکینڈل جیسے کہ رنگ روڈ، چینی، آٹا، ادویات اس طرح کے اور کئی دوسروں میں حکومتی اربابِ اختیار کا نام ہی منظرِ عام پر آ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا اب کسی حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ حکمرا ن طبقے نے اس ملک کے محنت کش عوام کا خون چوس چوس کر اور اس ملک کو اپنی کرپشن، بد عنوانیوں سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے مجموعی بجٹ چاہے وہ وفاق یا صوبے کی سطح کا ہو اس میں بہت زیادہ عوامی ترجیحات کا فقدان نظر آتا ہے۔ وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم اور عام آدمی تک ان وسائل کی رسائی سے ہی معاشرے میں محرومی کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عام آدمی کو سیاسی، سماجی اور معاشی طاقت فراہم کرے۔ یقینی طور پر یہ ذمہ داری ریاستی اور حکومتی سطح کی ہے اور وہ ہی ہر فورم پر نہ صرف ذمہ دار ہے بلکہ ہر سطح پر جوابدہ بھی ہے۔ عام آدمی بجٹ سے نا خوش رہتا ہے کیونکہ اس کا عمومی تصور یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اس بجٹ کی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ وہ عام طور پر بجٹ کو طاقت ور طبقات کے مفادات سے جڑے ایک بڑے کھیل کے طور پر دیکھتا ہے۔ بجٹ اور عام آدمی کے مفاد کے درمیان بڑی سیاسی اور معاشی خلیج دیکھنے کو ملتی ہے۔ آج تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ امیر آدمی کے پاس پیسہ آئے گا تو وہ نیچے پہنچائے گا لیکن یہ سوچ اب ناکام ہو چکی ہے بلکہ دقیہ نوسی سمجھی جانے لگی ہے۔ اب وقت بدل گیا ہے ہمیں اپنی سوچ ہو بدلنا ہو گا۔ حکومت کے احساس پروگرام اور صحت کارڈ اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہ پائیدار ترقی کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ جب تک عام آدمی کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کیا جائے گا تو مسائل مناسب طور پر حل نہیں ہوں گے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ان کا معیارِ زندگی بہتر ہو وہ خود ان سہولیات کیلئے اپنی آمدنی میں سے کٹوتیاں کروائیں اور یہ سہولیات حاصل کریں۔
جو بھی بجٹ آتا ہے حکومت اسے عوام دوست قرار دیتی ہے لیکن اس کے آنے کے بعد مہنگائی کے پے در پے تھپیڑے عوام پر پڑتے رہتے ہیں۔ صرف سرکاری ملازمین اور پینشنروں کی ماہانہ آمدن میں مہنگائی کے مقابل جو معمولی اضافہ ہوا ہے، اس سے محض ایک ڈیڑھ ماہ حد دو ماہ کا کچھ ریلیف ملے گا اور پھر منافع خور تنخواہ اور پینشن میں اس معمولی اضافے کو اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے زائل کر دیں گے۔ تنخواہ داروں میں وہ طبقہ بہت ہی مظلوم ہے جو بجٹ میں تنخواہوں کے اضافے سے ملنے والے عارضی ریلیف سے بھی محروم رہے گا یعنی نجی اداروں کے ملازمین جنہیں بجٹ میں تنخواہوں میں عارضی اضافہ بھی مالک کی مرضی پر منحصر ہے، یہ تو موجودہ دور میں بالکل پس کر رہ گئے ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت ٹریک پر آ چکی ہے اور معاشی اشاریے مثبت رجحان دکھا رہے ہیں۔ لیکن حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے سخت شرائط پر مزید اتنا قرض لے لیا ہے کہ اس کی ادائیگی نہ صرف اس کے لیے بلکہ آئندہ والی نسلوں کے لئے وبالِ جان ثابت ہو گی۔ مہنگائی اس قدر بڑھ جائے گی کہ غریب کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا اس کے لئے دو وقت کی روٹی کو پورا کرنا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ اس وقت حکومت کو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ ہے مہنگائی کا یعنی گروتھ اگر اچھی بھی ہے اور مہنگائی کم نہیں ہو رہی ہے تو اس کا عام آدمی پر مزید منفی اثر پڑے گا۔ اگر حکومت کا خیال ہے کہ گروتھ ہوئی ہے لیکن عام آدمی تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ پا رہے ہیں تو اسے اس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہو گا کہیں ذخیرہ اندوزی یا سمگلنگ تو نہیں ہو رہی ہے جس سے طلب و رسد میں فرق پڑ رہا ہے۔ طلب رسد کو بڑھانے کے لئے ا قدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں تقریباً ہر حکومت کے دور میں پہلے طلب کو قابو کیا جاتا ہے اور بعد میں رسد کو بڑھایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ وزیرِ اعظم معاشی ترقی سے مطمئن ہیں اور اس بجٹ کو خوشحالی کا بجٹ قرار دے رہیں تو اس معاشی ترقی کا فائدہ عوام کو ہونا چاہئے جب کہ عوام آج کل مہنگائی سے بہت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ خوشحالی کا بجٹ ہے تو مشکلات کا بجٹ تو پھر بہت خوفناک ہو گا۔ کون سی چیز ہے جس کا استعمال مہنگائی نے کم نہیں کر دیا ہے؟ بجلی، گیس، گوشت، دودھ، سبزیاں، چکن، حتیٰ کہ چینی اور دالیں، سفید پوشوں کے لئے اجلے کپڑے اور کرائے، غرض کہ ہر روز مرہ ضرورت کی شئے عوام کی دسترس سے دور ہو رہی ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.