آئی پی پیز معاہدے اور پاکستان

925

اگر کوئی یہ پوچھے کہ ترقی اور قرضوں سے نجات کے لیے پاکستان کو فوری طورپر کیا کرنا چاہیے تواکثر معاشی ماہرین کا جواب ہوتا ہے پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے اور اندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کرناہوگی وگرنہ کوئی اور ایسا طریقہ نہیں جس سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لایا جا سکے کیونکہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرزکے ساتھ اِتنے مہنگے معاہدے کیے گئے ہیں کہ پاکستان میں بجلی خطے کے تمام ممالک سے زیادہ مہنگی ہوگئی ہے حالانکہ صنعتوں کوفروغ دینا ہے تاکہ برآمدی پیداوار میں اضافہ ہو تو سستی بجلی ناگزیر ہے مگر پاکستان میں صنعتی شعبے کو سترہ سینٹ (ڈالر) کے حساب سے بجلی فراہم کی جاتی ہے یہ نرخ خطے میں تمام ممالک سے زیادہ ہیں اِس وقت زیادہ ترسرمایہ کاروں کارجحان بھارت اور بنگلہ دیش کی طرف ہے کیونکہ وہاں نہ صرف بجلی بغیر کسی وقفے کے چوبیس گھنٹے میسر ہے بلکہ سستی بھی ہے صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت بھارت میں چھ سینٹ اوربنگلہ دیش میں 8.6ہے اسی لیے مذکورہ دونوں ممالک پاکستان کو صنعتی شعبے میں مات دے چکے ہیں پاکستان میں بھی 1991 تک ساٹھ فیصد بجلی پانی سے پیداکی جاتی تھی جو نہ صرف سستی تھی بلکہ یہ طریقہ ماحول دوست بھی تھا لیکن اب پانی سے بجلی کی پیدوار محض 26فیصد رہ گئی ہے کیونکہ ملک کاانحصار مہنگے اور درآمدی فیول سے بجلی پیداکرنے والے آئی پی پیز پر بڑھ گیا ہے مزید ستم یہ کہ آئی پی پیز کے کئی ایسے منصوبے ہیں جو ایک یونٹ بجلی پیداکیے بغیر ہی ماہانہ اربوں روپیہ وصول کر رہے ہیں ایسی ہی حماقتوں سے گردشی قرضہ تین ہزار ارب کے قریب جا پہنچا ہے مگر حکمران چُپ ہیں ظاہر ہے اِس واردات میں حکومت کے بااختیارلوگ شامل ہوں گے وگرنہ ایسے حالات میں جب صنعتیں بند اور کاروبارتباہی کے دہانے پر پہنچ چکے گھریلو صارفین بل اداکرنے کی سکت نہ ہونے پر بلبلا رہے ہیں مگر کسی کوپرواہ ہی نہیں کہ تباہی دستک دینے لگی ہے اب تو ثابت ہوچکاکہ پاکستان اور آئی پی پیز معاہدے ایک ساتھ نہیں چل سکتے اگر ملک کو بچانا ہے تو آئی پی پیز معاہدوں پر فوری نظر ثانی کرنا ہو گی۔

عوامی حلقوں میں ایک عام خیال یہ پایاجاتا ہے کہ آئی پی پیز کے زیادہ ترمالکان کا تعلق بیرونِ ملک سے ہے اسی لیے اُنھیں عوام اور ملکی مفاد سے کوئی سروکار نہیں لیکن اِس خیال میں جزوی صداقت ہے بجلی کے معاہدے چالیس خاندانوں سے کیے گئے جن میں سے اسی فیصد پاکستانی اور صرف بیس فیصد غیر ملکی ہیں یہ جو بیس فیصد غیر ملکی ہیں اُن کے بارے میں بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ اُن کی آڑ میں بھی پاکستانی ہی ہیں جنھوں نے بیرونِ ممالک کمپنیاں بنا کر پاکستان سے معاہدے کیے اور مہنگی بجلی دے کر لوٹ مارکا ایسا بازارگرم کر رکھاہے کہ صنعت وزراعت بھی تباہ ہوچکی ہیں انفرادی مفاد کے لیے اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے کی دنیامیں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ایک اورحیران کُن بات یہ ہے کہ ملک میں خواہ کوئی بھی جماعت اقتدارمیں آجائے سب آئی پی پیز معاہدوں کا تحفظ کرتی ہیں کوئی بھی مہنگے معاہدوں پرنظرثانی میں دلچسپی نہیں لیتی ظاہرہے جب تمام جماعتوں میں شامل بڑے بڑے سرمایہ دار بجلی معاہدوں کی آڑ میں لوٹ مارکرتے اور اہم لوگوں کو مناسب حصہ دیتے ہیں توکوئی نظرثانی کیوں چاہے گا؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر جماعت اور نئی آنے والی حکومت آئی پی پیز کے مفادات کی نگہبانی کرے؟ایک اور اہم ترین بات جو اپنے قارئین کے علم میں لانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ 130 آئی پی پیز معاہدے مسلم لیگ ن کی 2013 سے 2018 کی حکومت نے کیے اور اکثریہ جو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شریف خاندان نے توانائی کی قلت ختم کی اور ملک سے اندھیر ے دورکیے غیرحقیقی ہے اِس آڑ میں کھربوں روپیہ کیسے ملکی خزانے سے سرمایہ کاروں کی جیب میں چلا گیا اِس واردات کا کبھی اعتراف نہیں کیاگیا دوسرے نمبر پر راجہ پرویز اشرف رہے جنھوں نے 48 کمپنیوں کواجازت دے کر کیا کچھ حاصل کیایہ بھی ہنوز صیغہ راز میں ہے پیپلز پارٹی بھی اِس ظلم ِ عظیم میں کسی سے پیچھے نہیں رہی جس نے35کمپنیوں کواجازت نامے دیکرمالی مفادحاصل کیاجبکہ ایسی نوازشات میں تحریکِ انصاف بھی پیچھے نہیں رہی اُس کی دیانتدارحکومت نے 30کمپنیوں کو مال بنانے کا موقع فراہم کیااسی لیے جس بھی جماعت کی ملک میں حکومت آجائے آئی پی پیز پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا بلکہ سبھی تحفظ دیتے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بجلی نرخ بڑھا کر لُٹیروں کو مال بنانے کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے حکومت مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کرے اور دوبارہ پانی سے سستی بجلی بنانے پرتوجہ دے جو کمپنیاں بجلی پیداکیے بغیرماہانہ اربوں وصول کررہی ہیں نہ صرف اُن سے وصول کی گئی رقم واپس خزانے میں جمع کرائی جائے بلکہ بلیک لسٹ بھی کیا جائے۔

دنیاکی تمام حکومتیں سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیتی ہیں لیکن پاکستان میں جس قسم کی سرمایہ کاری کرائی جارہی ہے ایسی سرمایہ کاری کی کوئی ملک اجازت نہیں دیتا یہ تو ایسا ہی ہے کہ اپنی جیب کاٹنے کے لیے پیش کرتے ہوئے سہولتیں بھی دی جائیں سابق نگران صوبائی وزیرِ صنعت پنجاب ایس ایم تنویر اپنے دونوں پاور پلانٹس کی بجلی کے نرخوں پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہیں مگر حکومت اِس پیشکش سے فائدہ نہیں اُٹھا رہی ظاہرہے اِس طرح تو دیگر کمپنیوں کو بھی ایسا کرنے پر آمادہ کرناپڑے گا ایس ایم تنویر نے تو یہ بھی کہا ہے کہ پچاس ارب سرمایہ کاری سے چار سو ارب کمائے ہیں یہ اعتراف ایک سرمایہ دار کا ہے اندازہ لگائیں دیگر نے کیا واردات ڈالی ہوگی؟ بے نظیر بھٹو سے لیکر نواز شریف تک سب نے آئی پی پیز کے مفاد کا تحفظ کیالیکن اب جبکہ کچھ کمپنیاں بجلی نرخوں میں کمی کرنے پر تیار ہیں تو حکومت اِس پیشکش کو قبول کرنے سے کیوں ہچکچارہی ہے اِس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ملک یا عوامی مفاد کے تحفظ کی باتیں محض ڈھونگ ہیں اور سب کوحصہ وصول کرنے میں دلچسپی ہے اگر موجودہ حکمران دیانتدار ہیں اور عوام سے حقیقی اخلاص رکھتے ہیں تو آئی پی پیز معاہدوں پر اولیں فرصت میں نظرثانی کرائیں وگرنہ عوام کویہی پیغام ملے گا کہ انفرادی مفادپر ملک اور عوام کے مفاد کی قربانی ہی اِن کابھی منشور ہے۔

تبصرے بند ہیں.