یہ راہیں یاد کرتی ہیں …… یہ گلشن یاد کرتا ہے

33

بچپن کا زمانہ جو کہ دنیا میں بادشاہت کا زمانہ ہوتا ہے ایک ایسے دلچسپ اور پرفضاء میدان میں گزارا جہاں کے گرد و غبار سے بالکل پاک تھا نہ وہاں ریت کے ٹیلے تھے نہ خاردار جھاڑیاں لگیں نہ آندھیوں کے طوفان نہ باد سموم کی فضاء تھی جب ہم اس میدان میں کھیلتے کودتے آگے بڑھے تو وہاں ایک اور صحرا اس سے بھی زیادہ دل فریب نظر آیا جس کے دیکھتے ہی ہزاروں ولولے اور لاکھوں امنگیں خودبخود دل میں پیدا ہو گئیں گویا زندگی ایک پیراہن ہے کہ جب چاہا پہن لیا جب چاہا اتار دیا واہ رے میرے بچپن کے وہ سہانے دن جب گاؤں میں حویلی نما گھر میں لگے نلکے کے ٹھنڈے پانی سے نہانا یا اکثر صبح سویرے ٹیوب ویل کے تیز رفتار پانی کا جسموں سے ٹکرانا، گرنا، اٹھنا اور اٹھ کے دوبارہ پانی میں چلے جاتا…… کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔

ماضی بھی کس قدر کبھی بہت تنگ کرتا ہے اور مجھے ان دھندلکوں میں لے جاتا ہے جہاں بچپن کے دن گزارے جہاں لڑکپن کا زمانہ گزرا۔ کہیں گاؤں کی صبح سویرے مرغ کا بار بار وقت فجر بانگ دینا، کہیں بھینسوں کی آوازیں اور گلے میں لگے ٹل صبح سویرے گاؤں کی پگڈنڈیوں میں گائے، بھینسوں، بکرے، بکریوں اور دنبوں کے چلتے غولوں کے غول۔ صبح سویرے ان کا دانا پانی کی تلاش میں نکل جانا اور پھر کسان کا چلچلاتی دھوپ میں زمینوں میں فصلوں اور پھلوں کے بیج بونا، کبھی اس کا کنویں سے تازہ پانی کے ذریعے کھیتوں کو سیراب کرنا، کہیں اور پھر ہمارے تانگے کا گھر آنا، تانگے پر بیٹھ کر سکول جانا اور پھر اسی تانگے پر واپس گھر آنا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر تانگے کی چولوں سے مختلف آوازیں آج بھی گھوڑے کی ٹک ٹک چال پر چلنا بہت یاد آتا ہے اور پھر گاؤں کی الہڑ مٹیاروں کا دن دیہاڑے لکن میٹی کھیلنا، کوکلا چھپاتی کے رنگ جمانا اور کپڑوں سے آزاد چھوٹے بچوں کا اخروٹ اور بنٹوں کے ساتھ صبح سے شام تک گاؤں کی کچی زمینوں پر کھیلنا ہی ان کے کھیل کے میدان بھی ہوا کرتے تھے۔ جب مجھے یاد آتا ہے تو دل کرتا ہے کہ شہر کی بدمستیاں شہر کی خرمستیاں شہر کی مفاداتی عزتوں کو پامال کرتی زندگی دولت کی پجاریوں اور جھوٹی عفریت زدہ زندگی سے نکل کر واپس اپنے گاؤں لوٹ جاؤں۔

گو زمانے کے بدلتے رنگوں میں اب تو میرے یہ گاؤں بھی بدل گئے ہیں۔ اب تو وہاں کی فضاء میں بھی شہری رنگوں کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ اب وہاں بھی کچی سڑکوں کی جگہ پکی سڑکوں نے لے لی ہے اور سب سے بڑی بات اب وہاں بھی سوشل میڈیا پہنچ گیا ہے۔ کسی زمانے میں یہ گاؤں جو شہروں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور جو گاؤں شہروں سے دور تھے وہ اب بھی اپنی اصلی حالت میں گاؤں ہی ہیں آج بھی وہاں کنویں چلتے ہیں، ہر طرف فصلیں لہرا رہی ہیں، لہلاتے کھیتوں کی ہریالی ہی ہریالی۔ وہ شام کو گاؤں میں والی بال اور فٹ بال کا کھیلنا اور انہی کھیلوں کے ساتھ تازہ گنے کا رس اور رس سے گڑ کا تیار ہونا اور شام کو آٹا پیسنے والی چکی سے ٹوں …… ٹوں کا سائرن بجنا اور اسی شام کو اماں کا ریت میں چنے بھوننا یہ سب بہت خوبصورت ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ماحول کبھی ان بدنصیب شہروں کو نصیب نہیں ہوتے یہی تو شہروں اور گاؤں کی زندگی میں بڑا فرق ہے کہ وہاں نہ شور شرابا نہ بے ہنگم ٹریفک اور نہ دھویں بھرا ماحول اور نہ وہ کتابوں میں درج ہی نہیں تھا جو سکھایا نہیں زمانے نے……

آج حضرت مادھو لالؒ کی شاعری بھی بہت یاد آ رہی ہے کہ جب
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
دکھاں دی روٹی سولاں دا سالن آہن دا بالن بال نی

پھر گاؤں کا ایک وہ خوبصورت ماحول جب دادی یا نانی اماں کچی مٹی کے چولہے پر لکڑیوں کو پھونکیں مارتی بوڑھے چہرے کے ساتھ آنکھوں میں پانی لیے روٹی پکاتی تھیں اور خالص دیسی گھی، مکئی کی روٹی اور پھر اوپر سے ساگ اور بہت سے کہ اس زمانے میں گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی تھی اور شام کو سورج کی لالیاں اور پھر اندھیرے کے چھاتے ہی لال ٹین کی بتی کے سائے میں زمین پر رجو، پینو، ببو کا دادی اور نانی اماں کے اردگرد بیٹھ کر کھانا کھانا۔ اگر آپ نے کبھی گاؤں کی زندگی دیکھی ہوگی اور آپ گاؤں میں بھی رہے ہوں گے تو آپ کو بھی گاؤں یاد آتا ہوگا۔ اس دور کی گزری بچپن کی یادیں اور گاؤں کے وہ کھیل جو ہم بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے لکن میٹی۔ کیری کاٹا، گھوڑی بننا، ٹاپو، پیٹھو گرم اور……کھوکھلا چھپاتی آئی جے، جیڑا اگے پیچھے دیکھے اودی شامت آئی جے اور پھر چھپن چھپائی، گلی ڈنڈا، لاٹو چلانا یہ سب خوبصورت کھیل ہمارے گاؤں کی ثقافت کا اصل رنگ تو یہی ہوتے تھے ایک اور کھیل جس طرح آج کل شادی بیاہ کی رسمیں ہوتی ہیں اسی طرح بڑی دھوم دھام سے گڈی اور گڈے کی شادیاں بھی ہوا کرتی تھی۔ باقاعدہ گڈے کا بارات لے کر جانا، گڈی دلہن بیاہ کر لانا، پھر کھانوں کا انتظام دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں گاؤں میں رہتا تھا تو گاؤں میں پڑھتا تھا گاؤں سے شہر تانگے پر جاتے جاتے راستے میں خانو چاچا کی قلفیاں روزانہ کھاتا۔ ایک پیسے کی ایک قلفی اور ایک آنے کی چار قلفیاں اور گاؤں میں عورتیں بڑے تندور پر روٹیاں لگایا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں نہ گیس اور نہ بلوں کے رونے ہوتے۔ ایک پیڑے کے بدلے اماں روٹیاں لگاتی۔ یہ اس کی اصل کمائی ہوتی اور محبتوں کا یہ عالم تھا کہ اس زمانے میں جب گھروں میں شادیاں ہوتیں تو یوں لگتا تھا کہ پورے گاؤں کی شادی ہے۔ مہمان نوازی کا یہ عالم ہوتا کہ لوگ نئے بستر شادی والے گھر دے کر جاتے۔ صبح کے ناشتے کے ساتھ لسی، اچار، دہی اور کھانے بھی لے جاتے تھے۔

اور آخری بات……

جس شہر سے محبتیں روٹھ جائیں جس شہر میں نفرتین جنم لینا شروع کر دیں جس شہر میں عورت راج اور احترام آدمیت ختم ہو جائے جس شہر کا امن و سکون لٹ جائے جس شہر کے لوگ مسیحا سے قاتل بن جائیں جس شہر میں زندگی فاقوں پر اتر آئے پھر اس شہر کی زندگی کا کیا جیتا اور کیا مرنا…… تو پھر کیوں نہ اس شہر کو ہی چھوڑ دیا جائے کہ گاؤں کی راتیں یاد کرتی ہیں …… یہ گلشن یاد کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.