کامیابی جب آپ کے قدم چومتی ہے تو پھر جہاں پوری قوم ناچتی ہے گاتی ہے یہ ایک اچھا رومانس ہوتا ہے۔ ایسی خوشی ہوتی ہے کہ ہر چہرہ دلشاد ہر چہرہ اپنی چمک دمک کے ساتھ کھلکھلا رہا ہوتا ہے۔ زمین ان کے قدموں کو بوسہ دے رہی ہوتی ہے۔ آسمان بھی اپنے نیلگوں رنگوں میں اور خوبصورت دکھتا ہے۔ یہ منظرہم سب نے 29جون کو ویسٹ انڈیز کے مقام پر برج ٹاؤن کے خوبصورت سٹیڈیم میں جب بھارت جو کہ T-20ورلڈ کپ میں مسلسل جیت کر آ رہا تھا اس کے مقابلے میں ساؤتھ افریقہ جو پہلی بار T-20ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچا تھا آمنے سامنے دونوں ٹیمیں بہت مضبوط تو بہت خوبصورت میدان میں مدمقابل تھیں۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں لکھا تھا کہ یہ ٹائٹل بھارت جیتے گا کہ اس نے پورے ورلڈ کپ میں کہیں بھی جھول نہیں ماری۔ اور پہلے میچ میں ہی جیت کی جو بنیاد رکھی اسی جیت کو آخر دم تک برقرار رکھا۔ بھارت یوں بھی اس دفعہ دم خم میں تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ ورلڈ کپ 2023ء جو کہ اس کے ماحول اور میدانوں میں کھیلا گیا تھا وہ نہ جیت سکا مگر T-20ورلڈ کپ اگر نہ جیتا تو پھر وہ واپس بری ٹیموں میں جا کھڑا ہو گا۔
یہ سچ ہے کہ جب آپ یہ عزم کر لیں کہ پہاڑ کو گرانا ہے تو وہ گر جائے گا۔ یہاں کپتان روہت شرما کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے بہت بہترین انداز میں ٹیم کو لڑایا، کھلایا اور پھر کامیاب بھی کرایا۔ بھارتی ٹیم نے گیند بازی سے لے کر بلے بازی تک اور پھر ایک ایک بال پر رنز اور فیلڈنگ میں ایک ایک بال کو روک کرساؤتھ افریقہ کو ورلڈ کپ کے نزدیک نہیں آنے دیا۔ ایک موقع پرساؤتھ افریقہ میچ وننگ کی طرف چل پڑی تھی کہ سوریا کمار نے 19ویں اوور میں ملرکا کیچ پکڑ کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ میں یہ بات کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ جس طرح فن اور اس کی اقدار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس طرح کھیل کی بھی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہاں پر آپ نے کھیل کو دیکھنا ہے۔ ہندؤ مسلم، گورے اور سکھ کے ماحول سے نکل کر سوچنا ہے کہ میدان میں جو مرد میدان بن کر لڑا اور پھر اس نے معرکہ اپنے نام کیا بھی ایک داد ہے جو جیتنے والے کا حق بنتی ہے۔ بھارتی ٹیم نے ساؤتھ افریہ کے ساتھ جو حشر نشر کیا سو کیا مگرساؤتھ افریقہ نے بھی خوب جان لڑائی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ منزل کے قریب پہنچ کر بھی منزل سے دور ہوگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ چوکرز اگر ذرا دیر کے لیے وکٹ پر ٹھہر جاتے یا ایک دو پارٹنرشپ لگ جاتیں تو پھر بھارت کو ہرانے میں کوئی مشکل نہیں ملتی حالانکہ بھارت کی طرح جنوبی افریقہ والے بھی T-20ورلڈ کپ میں بہترین پرفارمنس اور بغیر ہارے فائنل تک پہنچے تھے اور دونوں ٹیموں نے باقی 18ٹیموں کو جو اس ورلڈ کپ کا حصہ تھیں ان کو ہرایا اور کرکٹ میں ایک تاریخ رقم کردی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کیوں جیتا اور ہم کیوں ورلڈ کپ کے سپرایٹ مقابلوں تک بھی رسائی حاصل نہیں کر سکے؟ میرے نزدیک اس کی دو تین بڑی وجوہات ہیں کہ ہم کبھی ایک بڑی ٹیم بنانے کے مراحل سے نہیں گزرے نہ ہم نے اچھی منصوبہ بندیاں کیں جن سے ایک بہترین ٹیم کا انتخاب کیا جا سکے۔ چاہے کھیل ہو یا کوئی اور ادارہ جب تک وہاں کے سسٹم کو باقاعدہ ایک جدید نظام کو جدید سہولیات کے ساتھ نہیں بدلا جائے گا اور ایک بڑی ٹیم بنانے کے لیے اس کے بنائے ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کرتے آپ کبھی بھی اچھی ٹیم نہیں بنا سکتے۔ بھارت اس لیے کامیاب ہے کہ وہ تجربات کی بنیاد پر ٹیم میں بار بار تبدیلیاں نہیں کرتے۔ ان کے کھلاڑیوں کو یہ کہا گیا ہے کہ کھیلنا بھی ہے مگر اپنے تجربات کو سامنے رکھ کر لمبی کرکٹ میں رہنا ہے۔ دوسرا ان کی ٹیم مسلسل کبھی ہوم گراؤنڈ تو کبھی کسی دوسرے ملک کے ساتھ ایک روزہ، T-20 اور ٹیسٹ کرکٹ میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ہمارا عالم یہ ہے کہ جب ہم نے کسی غیر ملکی دورے پر یا کسی ٹیم نے ہوم سیریز کے لیے آنا ہوتا ہے تو ایک پندرہ روزہ کیمپ لگتا ہے 24کھلاڑیوں میں سے جو ہر وقت موجود ہیں سے 14کی سلیکشن کی ایسا نہیں ہوتا جو سلوک آج کل ہماری ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔
اور آخری بات……!
میں نے گزشتہ روز سابق ٹیسٹ کرکٹر اور مشہور زمانہ جاوید میاں داد کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک وہ کونسا نقطہ ہے جس سے آپ کامیابیوں کا زینہ طے کر سکتے ہیں۔ صرف نیت کا صاف ہونا اور ملک کے لیے کھیلنا…… یہ جواب تھا جاوید کا وہ پھر بولے…… ہم نہ ملک کی خاطر کھیلتے ہیں نہ ہماری نیت ہوتی ہے کہ ہم نے جیتنا ہے نہ اس ٹیم میں ڈسپلن اور پھر اوپر سے جب ہر کھلاڑی خود کو ”سپریئر“ تصور کرے تو پھر وہاں جیت کا تصور ختم اور زوال کا وقت شروع ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے عروج ابھی دیکھا ہی نہیں اور زوال ہے کہ وہ ہم سے نکل نہیں پا رہا…… بھارت کی جیت اورساؤتھ افریقہ کا فائنل پہلی بال سے آخری بال تک آپ نے میچ دیکھا…… تو جاوید بولے…… دونوں اپنے اپنے ملک کے لیے کھیلے۔ ایک نے تو ہارنا تھا مگر میرے نزدیک کچھ ٹیمیں بہت بڑی ہیں مگر عین جیت کے وقت وہ ہار جاتی ہیں جیسے ساؤتھ افریقہ…… دونوں کے درمیان قسمت بھی تو کھیل رہی تھی اور میں تو اس کو بھارتی جیت کی بجائے قسمت کی جیت کہوں گا۔
تبصرے بند ہیں.