پاکستانی وزرائے اعظم کی قسمت میں جیل ہی کیوں؟

36

نواز شریف، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور اب عمران خان سب کو جیلوں میں بند رکھا گیا۔ بھارت میں ہر سابق وزیرِ اعظم کو پروٹوکول اور سکیورٹی ملتی ہے۔ دارالحکومت کے ریڈ زون میں گھر ملتا ہے اور پاکستان میں ہر وزیرِ اعظم کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔ ہماری سازشی کہانیاں ہمیں بعید از عقل سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے 11 اگست 1947ء کو وجود میں آنے والی پاکستان کی آئین ساز اسمبلی آئین بنائے بغیر 24 اکتوبر 1954ء کو توڑ دی گئی کیونکہ گورنر جنرل ملک غلام محمد اور اس وقت کی بیورو کریسی کے کرتے دھرتے اپنی دانائی میں یہ سمجھتے تھے کہ نو آموز پاکستانی ریاست میں اداروں اور عوام کو اتنا جلد آئینی حقوق دے دینا ملکی مفاد میں نہیں ہو گا جب کہ ہندوستان نے آزادی کے پہلے تین سال کے اندر ہی 26 جنوری 1950ء کو اپنا آئین بنا ڈالا۔ اس طرح ایوب خان نے مارشل لا بھی لگا دیا پھر اس مارشل لا کے خاتمے پر 1971ء میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کا وزیرِ اعظم بن گیا، جو مارشل لا کی نذر ہو گیا۔ پھر اس کے بعد ضیا کے مارشل لا کی چھتری میں انتخابات ہوئے۔ اس طرح ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جس نے پاکستان کو مستحکم ہی نہیں ہونے دیا۔ بد قسمتی سے اتنے سارے مسائل کھڑے ہونے کے باوجود ہم  نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اخلاقیات، اصول پرستی اور انسانی اقدار کا دور ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے پودے کی آبیاری کرنے کے لیے بے لوث، اصول پرست اور مخلص قائدین دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔

آج دنیا کا مالیاتی مرکز تیزی سے مغرب سے مشرق کی طرف گھوم رہا ہے۔ اس وقت اس خطے کے ممالک جن میں چین، بھارت، بنگلا دیش اور دیگر ممالک تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے معاشی حالات اس وقت تقریباً دنیا کے اہم ممالک کے مقابلے میں بد ترین ہیں۔ جس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے اس مغربی جمہوری نظام کو اپنانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے تعلیم یافتہ معاشرے، قانون کی بالادستی، کڑے احتساب اور دیانت داری کے اصولوں پر مبنی ایک موثر حکمرانی پیشگی شرائط ہیں۔ جس ملک کے چیف ایگزیکٹو کی مدت پوری ہونے پر الزامات کی بھرمار کر دی جائے، بادی النظر میں دیانت دار نہیں اور ا سے جیل کی ہوا کھانا پڑے تو ساری دنیا میں ہمارے ملک کا مذاق ہی اڑے گا۔

ہماری آزادی کے 75 سال میں سول ملٹری تعلقات سے کچھ سیاست دانوں اور موقع پرست بیورو کریٹس تو ضرور مستفید ہوئے لیکن حقیقی خسارہ وطنِ عزیز نے اٹھایا۔ پاکستان کے سب سے مضبوط، منظم اور پیشہ ور ادارے کو سیاست کے میدان میں گھسیٹ کر پاکستان دشمن قوتوں نے بغلیں بجائیں، چونکہ ایسی صورت میں اس ادارے پر کیچڑ اچھال کر کمزور کرنا آسان ہے۔ پہلے سے کمزور اور کرپٹ سیاسی کلچر جمود کا شکار ہونے سے سیاسی جماعتیں بھی زوال کا شکار ہو گئیں اور سیاسی آمریت نے جنم لیا۔ سول ملٹری ادوار کی اس آنکھ مچولی نے ملک کی چولیں ہلا دیں۔ نا تجربہ کار فوجی اور غیر مئوثر سیاسی حکومتوں کے عہد میں سول سروس، پولیس سروس، تعلیمی نظام اور حکمرانی نہ صرف بری طرح تباہ ہوئے بلکہ لسانیت، فرقہ واریت، لا قانونیت اور صوبائیت جیسے ریاست کش زہر نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ملکی خزانے کی لوٹ مار ایسی ہوئی جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ مالی دیوالیہ پن کا شکار سیاسی جماعتیں اربوں ڈالر کی مالک بن گئیں، اس سے چند خاندان اور سیاسی خاندان امیر ترین لیکن ریاست اور عوام خطِ غربت کی اوسط حد سے بھی گر کر دو وقت کی روٹی کو ترس گئے۔

غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی عدم توازن کا شکار اس قوم نے انتخابات میں اپنا ووٹ ایک بار پھر جمہوریت کے حق میں دیا۔ دوسری طرف پاکستان میں چونکہ عدل کا نظام انتہائی غیر تسلی بخش ہے، جج حقائق کے بجائے شہادتوں پر فیصلے دینے کا پابند ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسے ایسے عدالتی فیصلے آئے ہیں جن کی کسی جمہوری معاشرے میں نظیر ملنا ناممکن ہے۔ جج بھی کیا کریں وہ تو شہادتوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے اور شہادت پیش کرنا اوروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ جو چاہیں شہادت بنا لیں۔ ظاہر ہے انہیں تو پھر ویسے فیصلے ہی کرنا ہیں۔

پاکستان کی تخلیق کا خواب دیکھنے والے اور پھر اس خواب کو عملی جامہ پہنانے والوں کے ذہنوں میں کوئی ابہام نہ تھا۔ متحدہ ہندوستان میں اپنی ساری زندگیاں گزار کر اور تلخ حالات کا سامنا کر کے وہ دو قومی نظریے کے تصور تک پہنچے اور پاکستان کی تخلیق ان ارادوں کے ساتھ کی کہ وہ اس ملک کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنا کر دم لیں گے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ 75 سال کے بعد آج ہم جمہوری ہیں نہ اسلامی ریاست اور فلاح کا دور دور تک کوئی نشان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ، طاقت کے نشے اور دولت کی ہوس نے ہماری قیادت کو اندھا کیا ہوا ہے۔

تبصرے بند ہیں.