فضول تنگ نہ کریں

42

ہم سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں امریکہ میں بھارت سے میچ ہارنے پر پاکستان میں لوگ ہم پر کتنی لعنتیں بھیج رہے ہیں، یہ پاکستانی سمجھتے ہیں ہم یہ میچ آسانی سے ہار گئے، ان بے خبر پاکستانیوں کو کیا پتہ ہمیں یہ میچ ہارنے میں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں کو وہ سردار جی کیوں یاد نہیں آ رہے جو ایک بہت بڑے وکیل تھے، ایک کلائنٹ نے ان سے کہا “میرے بیٹے کو قتل کیس میں سزائے موت سنا دی گئی ہے، میں آپ کو منہ مانگی فیس دوں گا آپ بس یہ کریں کسی طرح میرے بیٹے کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلوا دیں”، سردار جی نے منہ مانگی فیس لے کے مقدمہ لڑا اور سزائے موت کو عمر قید میں بدلوانے میں کامیاب ہوگئے، کلائنٹ ان کا شکریہ ادا کرنے آیا سردار جی نے انہیں بتایا کہ میں نے بڑی مشکل سے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کروایا ہے ورنہ جج صاحب تو آپ کے بیٹے کو رہا کرنے لگے تھے، سو یہ جو ہمارے پاکستانی بھائی ہم پر الزام لگاتے ہیں ہم بڑی آسانی سے میچ ہارے ہیں ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں ہم نے یہ میچ بڑی مشکل سے ہارا ہے ورنہ انڈیا تو اپنی طرف سے طے کر کے بیٹھاہوا تھا یہ میچ اس نے ہمیں جتوا کے رہنا ہے، پاکستان میں اللہ جانے لوگ اتنا منفی کیوں سوچتے ہیں؟، لوگوں کو چاہئیے ہماری وطن واپسی سے پہلے پہلے مثبت سوچنا شروع کر کے ہمارے شاندار استقبال کے لئے ائرپورٹ پہنچیں، ہماری ہار پر ہمیں ہار پہنائیں، اور اس بات پر ہمارے منہ سر و دیگر اعضاء وغیرہ والہانہ انداز میں چومیں کہ ہم صرف سات رنز سے ہارے حالانکہ ہندوستان کی پوری کوشش تھی ہمیں زیادہ رنز سے جتوائے، ہم زیادہ رنز سے ہارنے کا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر ہم نے کم رنز سے ہارنے کا کم فائدہ اٹھا کر جو قربانی دی، پاکستانیوں کو وہ یاد رکھنی چاہیے، پاکستان میں ہر کوئی پاکستان کی عزت آبرو داؤ پر لگا رہا ہے، یہی کام ہم نے کر کے کون سا جرم کر دیا ہے؟، ہم اگر یہ کام نہ کرتے اپنی ”شناخت“ کھو بیٹھتے، ہم پر الزام لگایا گیا ”ہم امریکہ کی “نومولود” ٹیم سے میچ ہار گئے، ہم نے پاکستان کا وسیع تر مفاد دیکھا، آگے بجٹ آ رہا تھا، پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہے ہیں، اس میں ظاہر ہے امریکہ کا کردار اہم ہوتا ہے، ہم  نے سوچا ہم امریکہ سے میچ جیت گئے اس بات کا امریکہ کہیں برا ہی نہ مان جائے، ایسی صورت میں پاکستان کو مزید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، اس لئے ہم نے امریکہ سے میچ ہار کے پاکستان کو ایک بڑی معاشی آزمائش سے بچا لیا ہے، بجائے اس کے پاکستان میں لوگ ہمارے اس کردار کو سراہیں الٹا ہم پر لعنتیں بھیج رہے ہیں، بھیجتے رہیں، ہم پر اس کا کون سا کوئی اثرہونا ہے؟ ہم نے لگتے ہاتھ اس بات کی ٹریننگ بھی لے لی تھی کوئی جتنی مرضی لعنتیں بھیجے ہم نے اس پر توجہ ہی نہیں دینی، ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے ہم اپنا کام کرنے یعنی کرکٹ پر توجہ دینے کے بجائے دوسرے کام کرتے ہیں، بندہ پوچھے پاکستان میں یہ کام جب ہر بندہ ہر ادارہ کر رہا ہے ہمیں کرتے ہوئے موت پڑتی ہے؟ اگر ہم ”دوسرے کام“ نہیں کریں گے ہماری جگہ میچ کون ہارے گا؟ بھارت سے میچ ہارنے پر پاکستانیوں نے اعتراض کیا ”ہماری بیٹنگ“ بہت بری تھی، یہ اصل میں ہماری ٹیم میں پھوٹ ڈلوانے کی سازش ہے، بندہ پوچھے ہماری باؤلنگ کون سی اچھی تھی جو سارا الزام ہماری بیٹنگ پر لگا دیا گیا؟ یہ ہمارے بیٹسمینوں کے حوصلے پست کرنے کی سازش ہے جسے اپنے باؤلروں کے ذریعے ہم ناکام بنا دیں گے، ہم اپنے باؤلروں سے کہیں گے آئندہ کسی میچ میں کمزور کارکردگی دیکھا کر بیٹسمینوں کی کمزور کارکردگی کا حساب برابر کردیں، سب سے اہم بات یہ ہے ہمارے میچ ہارنے پر پاکستان میں ہر بندہ منہ و دیگر اعضاء وغیرہ چک چکا کے ہم پر تنقید کر رہا ہے، بندہ ان سے پوچھے ہم کوئی اکیلے اس کے ذمہ دار ہیں؟ ساری پاکستانی قوم رو رو کے ہمارے لئے دعائیں کر رہی تھی، سچ پوچھیں اصل میں ان دعاؤں نے ہمیں ہروایا ہے، جس طرح کی لعنتوں میں بے شمار پاکستانی ملوث ہیں، ظلم کرتے ہیں اور ظلم برداشت بھی کرتے ہیں، سوائے سور کے ہر حرام کو بوقت ضرورت اپنے لئے حلال قرار دے دیتے ہیں، اس کے علاوہ ہزار خرابیاں ان میں اور بھی ہیں، ایسی صورت میں اْن کی دعائیں رنگ نہیں لاتیں تو میچ ہارنے کا سارا ملبہ وہ ہم پر کیسے ڈال سکتے ہیں؟ پاکستانی بھائیوں سے ہماری گزارش ہے اگلے کسی میچ میں ہماری جیت کی دعا نہ کر کے دیکھیں، شاید ہم میچ جیت جائیں، جس کا ظاہر ہے مالی طور پر ہمیں نقصان ہوگا پر قوم کو تو ٹھنڈ پڑ جائے گی ناں پاکستان میچ جیت گیا ہے، پاکستان واپس جا کر اپنے ٹرینروں سے اپنی شکست کے اسباب بھی ہم ضرور ڈسکس کریں گے، ہم سوچ رہے ہیں وہ آگے سے ہمیں یہ لطیفہ ہی نہ سنا دیں، ایک صاحب کی بھینس بیمار ہو گئی، وہ اپنے محلے کے ایک ”سردار جی“ کے پاس گئے اور ان سے پوچھا “سردار جی آپ کی بھینس بیمارہوئی تھی آپ نے انہیں کیا میڈیسن دی تھی؟ سردار جی کی بتائی ہوئی میڈیسن انہوں نے جا کر اپنی بھینس کو کھلائی بھینس فوراً مر گئی، وہ صاحب بھاگم بھاگ دوبارہ سردار جی کے پاس پہنچے، انہیں بتایا “میری بھینس مر گئی ہے”، سردار جی بولے “مر تے میری وی گئی سی”، کہتے ہیں ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے، کسی ہار پر دل نہیں ہارنا چاہیے، جوا بھی تو بندہ ہارہی جاتا ہے ناں، اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے بندہ جوا کھیلنا بند کر دے؟ بھارت سے ہارنے کے بعد ہم اپنا دل نہیں ہارے، بلکہ ہم نے شکر ادا کیا ہے ہمارے مالکوں نے ہماری شکست کے فوراً بعد یہ اعلان نہیں کر دیا کہ “اپنی یہ “ماڈل ٹیم” ختم کر کے ان کی جگہ پاکستان کے عام گلیوں محلوں میں کرکٹ کھیلنے والے کچھ ٹیلنٹیڈ نوجوانوں کو پاکستانی ٹیم میں بھرتی کر کے ان کی ٹریننگ پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کئے بغیر انہیں میچ کھلوائیں گے” مستقبل میں ایسی کوئی پلاننگ کر لی گئی ہم سب کہیں اور لگے نہ لگے دیوار سے ضرور لگ جائیں گے، بہرحال بھارت سے شکست کے بعد عملی طور پر امریکہ میں اب ہم تقریباً فارغ ہو گئے ہیں، آج پیر کو ہم نے نیویارک کے بڑے بڑے شاپنگ مالوں سے اپنے لئے، اپنی بیگمات کے لئے ان کی کچھ سہیلیوں کے لئے، اور اپنی کچھ سہیلیوں کے لئے برانڈیڈ چیزوں کی جی بھر کر شاپنگ کی، بس اس بار یہ ہوا مختلف شاپس پر ہمارے ساتھ پاکستانیوں سے زیادہ امریکیوں اور بھارتیوں نے سیلفیاں لیں، اب پاکستان واپس جا کر اپنے مالکوں سے ہم گزارش بھی کریں گے “اگر کرکٹ ہم سے نہیں کھیلی جاتی بدو بدی ہمیں کیوں کھلائی جاتی ہے؟ کوئی اور گیم ہم سے کروا کے دیکھ لیں، مثلاً گلی ڈنڈا، کیڑی کاٹا، کینچے، یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی، چڑی اڈی کاں اڈا، کیرم بورڈ، لڈو و لڈی، لکن میٹی جیسی گیموں میں ہمیں ٹرائی کیا جائے، یا پھر ماڈلنگ وغیرہ کروا کے دیکھ لیا جائے، یقین کریں ان کاموں میں اپنی قوم کو ہم بالکل مایوس نہیں کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.