یوم تکبیر اور اسکی اہمیت

46

مارچ 1998 میں ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی نے الیکشن جیت کر حکومت سنبھالتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ ایٹمی تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پھر 13-11 مئی کو پوکھران کے مقام پہ موجود ٹیسٹ سائٹ سے ہندوستان نے پہلے دن چار اور اگلے دن ایک نیوکلیر ٹیسٹ کر کے دنیا کو بتلا دیا کہ اب ہندوستان پہ انتہا پسند جماعت کی حکومت ہے جو خطے میں طاقت اور دھونس سے رعب و دبدبہ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد اگلے دو ہفتے تک ہندوستان کے کئی وزراء نے یکے بعد دیگرے، پاکستان پہ حملے سمیت آزاد کشمیر پہ قبضے اور خاکم بدہن وطن عزیز کے کئی ٹکڑے کرنے کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے۔ جس پہ حکومت پاکستان نے اپنا رد عمل بھی دیا اور بین الاقوامی فورمز پہ اس مسئلے کو اجاگر بھی کیا لیکن یوں لگا کہ ایٹمی تجربات کے بعد جیسے فضا ہی ہندوستان کے حق میں ہو گئی ہو۔ ان حالات میں حکومت پاکستان پہ عوامی پریشر دن بہ دن بڑھنے لگا کہ وہ اس مسئلے میں تمام مصلحتوں سے بالا ہو کر ملکی مفاد میں فوری فیصلہ کرے۔
اس وقت کے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب نے ہندوستان کے ان تجربات اور بعد ازاں دیئے گئے بیانات پہ غور کرنے، کابینہ اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان سے اجلاسوں کے بعد ہندوستان کو اسکی زبان میں جواب دینے کا پروگرام بنا لیا۔ اور یوں ایٹمی سائنسدانوں اور مسلح افواج کو ہائی الرٹ پہ کر کے اس ضمن میں تمام تیاریاں جلد از جلد مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔ چنانچہ ایٹمی دھماکوں کے لئے بلوچستان کے دور دراز اور ویران علاقے چاغی کا انتخاب کیا گیا اور چاغی کے پہاڑوں میں تیاریاں زور پکڑ گئیں۔ جب امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو پاکستان کے اس فیصلے کی بھنک پڑی تو امریکی صدر سمیت متعدد یورپی رہنماؤں نے پاکستانی وزیر اعظم پہ پریشر بڑھانا شروع کیا کہ پاکستان کسی بھی قسم کے تجربات کرنے سے باز رہے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو پاکستان واحد مسلم ملک تھا جس کے پاس یہ سہولت موجود تھی اور دوسرا مغرب کسی بھی اسلامی ملک بشمول پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے اور اسے ڈکلیئر کرنے کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ بھی گردانتا تھا۔

21-28 مئی کے درمیان کوئی دن ایسا نا تھا کہ جب وزیر اعظم پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کی صورت میں معاشی پابندیوں کا سنا کر ڈرایا دھمکایا نا گیا ہو یا امداد کی فراہمی کا کہہ کر ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کی کوشش نا کی گئی ہو۔ خاص طور پہ ان امریکی کوششوں کی ایک جھلک، ڈگلس فرانز اور کیتھرین کولنز کی کتاب ’دِی مین فرام پاکستان‘ میں پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ اس میں امریکی پیشکش اور اس کے بر عکس اس ضمن میں پاکستان کے اقدامات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”ہندوستان کے تجربات کے بعد کلنٹن نے تحمل پر زور دینے اورتجربات نہ کرنے کے بدلے مراعات کی پیشکش کے لیے نواز شریف کو چار مرتبہ ٹیلی فون کیا۔ کلنٹن نے امریکی قرضے معاف کرنے، (پاکستان مخالف) پریسلر اور سولارز ترامیم ختم کرانے اور کانگریس سے نئی فوجی امداد کی منظوری لینے کا بھی وعدہ کیا۔‘ لیکن آفرین نواز شریف پہ کہ جس نے اس تمام تر عالمی پریشر کے باوجود نا تو فیصلہ بدلا اور نا ہی کسی مالی امداد کو اپنی سالمیت و خود مختاری سے زیادہ عزیز جانا۔ چنانچہ 28 مئی کو پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں زیر زمین 6 کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے دنیا اور ہندوستان کو حیران و پریشان کر دیا۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کس طرح ہندو بنئیے ڈر اور سہم گئے، ان کی گز گز لمبی زبانوں کو لگام مل گئی۔ حملہ کرنے والے اب بیٹھ کر بات کرنے کی دہائی دیتے نظر آئے۔ اوقات سے باہر ہوئے انتہا پسند اب مذاکرات پہ آنے لگے۔ اور پھر وہی ہندوستانی وزیر اعظم جو پاکستان کو سبق سکھانے چلا تھا بس پہ بیٹھ کر لاہور آ پہنچا۔ یہ تھی وہ کہانی جو ہندوستان نے 11 مئی 1998 کو شروع کی اور جس کا اختتام 28 مئی کو 1998 کو پاکستان نے کیا۔

یقیناً اس کے بعد پاکستان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن قوم نے یہ مشکل وقت بڑی ہمت و استقامت سے گزارا کیونکہ اب ہر محب وطن پاکستانی کو یہ علم تھا کہ روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارہ ہو جائیگا لیکن وہ اور انکی آنے والی نسلیں کسی بھی بیرونی جارحیت سے محفوظ ہو چکی ہیں۔ ان کامیاب تجربات یا دھماکوں نے جہاں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنا دیا وہیں دشمنوں کے اکھنڈ بھارت کے خواب کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چکنا چور کر دیا۔ جہاں باقی ایٹمی طاقتوں کے ایسے تجربات کو ان ممالک کے نام سے جانا گیا وہیں ان ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوہری بم کو ‘اسلامی بم’ کا نام دیا گیا۔ اور اس دن، دنیا کے تمام 56 مسلم ممالک یعنی دنیائے اسلام میں بھی پاکستان کے ساتھ جشن منایا گیا۔ جیسے یہ پاکستان نے نہیں، مسلم امہ نے دھماکے کئے ہیں۔

اب پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کے سبب کسی بھی روائتی و غیر روائتی حریف کی ہمت نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ اب یہی ایٹمی پروگرام ہماری سالمیت اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی گارنٹی بن چکا ہے۔

اس موقع پہ قوم کو اپنے محسنوں کو بھی ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ جن میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم اور سابق وزیر اعظم نواز شریف قابل ذکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم کے درجات بلند فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور دلی دعا ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کو صحت اور لمبی زندگی دیں۔ یقینا یہ ملک اور قوم آپ دونوں اور ہزاروں دیگر لوگوں جنہوں نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، انکی تاحیات مشکور رہے گی۔

ایٹمی پاکستان زندہ باد

تبصرے بند ہیں.