ان سے پوچھو اُجاڑے ہیں گلستان کس نے۔۔۔

22

سانحات پہ سانحات ہو رہے ہیں کرپشن کی نت نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں آدھا ملک گنوا دیا، سیکھا کچھ نہیں۔ ملک قرضوں تلے دب گیا، ہم نے جان چھڑانے کیلئے کوئی راہ نہیں نکالی۔ جذباتی شعر اور ملی نغمے سنا کر لوگوں کے دل موہ رہے ہیں اور سادہ لوح افراد کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے آ رہے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ہو یا پھر تبدیلی لانے کا، ہر سیاست دان نے ذاتی فائدے کے لیے عوام کو بے وقوف بنایا۔ عوام کے جذبات سے کھیلا، اقتدار کے گلچھڑے اڑائے اور چلتے بنے۔ بدقسمتی سے سب نے باری باری ملک کو لوٹا، آج کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں اربوں کی کرپشن کہانی سامنے نہ آئی ہو۔ لوگ پکڑے بھی گئے لیکن باعزت بری ہو گئے۔ نیب نے بہت سیاستدانوں کو پکڑا سزا کسی کو نہ ملی چند کو اگر سزا ہوئی تو وہ بھی دو چار سال بعد مکھن سے بال کی طرح نکل گئے۔ وجہ کمزور نظام عدل بھی ہے جس میں ایک عدالت سزا سناتی ہے تو دوسری سزا معطل یا کیس ختم ہی کر دیتی ہے۔ نامی گرامی سیاسی ڈاکوئوں کے ہر دور میں وارے نیارے ہوتے ہیں، انہیں لوٹ مار کے طریقے بھی آتے ہیں اور بچائو کے بھی؟ حالیہ گندم سکینڈل کو ہی دیکھ لیں کس طرح ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ جو کہتے ہیں کہ گلشن کو سنواریں گے ہم
ان سے پوچھو کہ اجاڑے ہیں گلستان کس نے

آج پی آئی اے، ریلویز، پاکستان سٹیل سمیت متعدد ادارے آتے جاتے حکمرانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے ہچکولے لے رہے ہیں، غربت ختم کرنے کے کئی بار وعدے ہوئے مجال ہے ایک وعدہ بھی پورا ہوا ہو، ملک میں جمہوریت نہیں بڑے بڑے سیاسی ڈاکو خطرے میں ہیں، ہر دوسرا ڈکیت گینگ این آر او مانگ رہا ہے۔ لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں لیکن کوئی گارنٹی دینے کو تیار نہیں کہ کل حکومت بدلی تو پھر کیا برتائو ہو گا؟ کیونکہ تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ کرنے کے نام پر خزانہ لوٹا گیا، روزگار کے نام پر لوگوں کو بے روزگار کیا گیا۔ آج کسانوں اور زمینداروں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اسکی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہے۔ پاسکو کے کارندوں اور افسروں نے کرپشن اور بدعنوانی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کی پالیسیوں کی بدولت صوبے میں مہنگائی 36 فیصد سے کم ہو کر 17 فیصد پر آ گئی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کیا صرف سستی روٹی لوگوں کی ضرورت ہے؟ نہیں بجلی، گیس بلوں نے لوگوں کو مارا ہے اس بارے کوئی کچھ نہیں اقدام کرتا۔ صوبے ہوں یا وفاق سب گونگے بہرے بنے ہیں۔ آج ملک میں سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری سے سالانہ 300 ارب روپے سے زائد کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ بتایا جائے اس میں کون ملوث ہے۔ ٹیکس چوری روکنے کیلئے جو حکومت نے سانپ پال رکھے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟ بجلی چوری سے ملکی خزانے کو سالانہ 600 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جس کی قیمت عوام بجلی مہنگی ہونے کی صورت میں چکا رہے ہیں۔ بجلی چوری کون کرتا ہے، یہ سب کو پتہ ہے لیکن نزلہ صرف عوام پر گرتا ہے۔ جب بھی پاور سیکٹر کے مالی خسارے کی کوئی نئی رپورٹ سامنے آتی ہے کمپنیوں کے اہلکار بجلی چوروں کے خلاف چند روز کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے مگر اگلی بار خسارہ مزید بڑھ چکا ہوتا ہے۔ آج ہم ملک کی تعمیر و ترقی اور اس سے وفاداری سے کنارہ کش ہو کر صرف اور صرف اپنی ذات، قوم، علاقہ اور زبان سے محبت کرنے لگے ہیں۔ اجتماعی سطح پر شدید افراتفری اور انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمیں قومی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہو چکے ہیں جو ہماری تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے ترقی یافتہ و ترقی پذیر قومیں اپنے طور طریقوں، ثقافت اور کلچر کو متعارف کرانے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اس کے بر عکس ہم وڈیرہ ازم، چودھراہٹ اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے پر کارفرما دکھائی دیتے ہیں، جس سے نمایاں مقام آج تک حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ آئے روز بجلی، گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں۔ حکومت ملک میں ہنگامہ خیز حالات کی آڑ میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے نئے پروگرامات اور قرضے لیے جا رہی ہے لیکن سارا بوجھ عوام پر ہی ڈال دیا جائے گا۔ قرضوں، کرپشن اور سود کی لعنت نے پہلے ہی معیشت تباہ کر رکھی ہے۔ سیاسی جمہوری قوتوں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ماضی کی غلطیاں تسلیم کرنا ہوں گی اور سب اپنے آپ کو آئینی حدود کا پابند بنائیں تا کہ ملک ترقی کر سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کرپشن کے ناسورکا خاتمہ کیا جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام کے ہاتھ اور سیاستدانوں کے گریباں ہوں گے۔ اب ہم سب کو ملکی تعمیر و ترقی کیلئے آگے بڑھنا ہو گا اور ملکی استحکام، ترقی ہم سب کیلئے ضروری ہے اور ملکی ترقی کیلئے کرپشن کا خاتمہ وقت کا تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں 10روپے کی بھی کوئی چیز خریدنا ہو تو اس میں کمیشن کو پہلے رکھا جاتا ہے اور یہی پاکستان کی بربادی کا موجب ہے۔
چٹی چادر تان کے سو گئے
مالک چور پہچان کے سو گئے
لٹن والیاں رج کے لٹیا
جاگن والے جان کے سو گئے

تبصرے بند ہیں.