15 مئی 1988ء کا 15 مئی 2024ء سے ایک سوال

31

یہ ٹھیک 36 برس پہلے 15مئی 1988ء کا دن تھا جب سوویت یونین کے جدید آرمرڈ پرسونل کیریئرز BTR-80s نے دریائے آمو پر ہیراتن پُل کراس کر کے واپس ماسکو کی راہ لی۔ افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے عمل کا یہ پہلا دن تھا اور یہ عمل 9 ماہ بعد 15فروری 1989ء کو مکمل ہوا۔ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کی کمانڈ ’’کرنل جنرل بورِس گروموو‘‘ کر رہے تھے۔ پاکستان میں سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کی خبر شادیانے بجا کر سنائی گئی کیونکہ 80ء کی دہائی کے دنوں میں پاکستان کے گلی کوچوں میں ایک ہی نعرہ گونجتا تھا ’’کمیونزم کا قبرستان، افغانستان افغانستان‘‘۔ اس کے حق میں چھوٹے بڑے اور اچھے بُرے سب منہ بولتے تھے ”اگر سوویت یونین کو افغانستان میں سبق نہ سکھایا گیا تو وہ پاکستان کو ہڑپ کر کے گرم پانیوں تک جا پہنچے گا۔ اس لیے ہر محب وطن مسلمان پاکستانی کا پہلا فرض تھا کہ وہ سوویت یونین کو جہنم رسید کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرے“۔ بیشک مذہبی اور وطنی غیرت کا تقاضا تھا کہ ان نعروں اور تقریروں کی پیروی کی جائے۔ اُس وقت کسی کو یہ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا کہ افغانستان میں کمیونزم کا قبرستان بنانے اور سوویت یونین کے پاکستان کو ہڑپ کر کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی تشریحات صرف اور صرف مخصوص انٹرنیشنل لابی کی فراہم کردہ تھیں۔ اُس وقت دل ہی دل میں یہ غور کرنا بھی جرم تھا کہ دوسرے فریق یعنی سوویت یونین کا موقف بھی معلوم کر لیا جائے۔ ہمارے ہاں عام لوگ خاص پس منظر کے باعث جذباتی واقع ہوئے ہیں اور اکثر اوقات سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس لیے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے حوالے سے اُن سے اُس وقت بھی کیا توقع رکھی جاتی؟ دوسری طرف اعلیٰ سطح کے پالیسی ساز ادارے اور دبنگ حکمران بھی یہی راگ الاپ رہے تھے۔ یہاں تک کہ مزدوروں اور کسانوں کی زندگیوں کو جنت بنانے کا دعویٰ کرنے والے اور سوشلزم کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو جیسے ’’عوامی ترین لیڈر‘‘ بھی سوویت یونین کے خلاف ’’طفیلی کمپین‘‘ کے بانیوں میں سے تھے کیونکہ انہوں نے ہی سب سے پہلے 1974ء کے آس پاس اپنے دورِ اقتدار میں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود جیسے نوجوان افغانیوں کو پاکستان میں ٹریننگ کے لیے جگہ اور شیلٹر فراہم کیا تھا۔ بھٹو کا اقتدار ختم ہونے کے بعد افغان جہاد میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی۔ گویا ہر ایک نے کمیونزم کی قبر پر اپنے اپنے حصے کی مٹی ڈالی۔ کمیونزم دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوا کہ نہیں یہ علیحدہ بات لیکن سوویت یونین دنیا کے نقشے سے ختم ہو گیا۔ وہ سوویت یونین جو دنیا کی دو سپرپاورز میں سے ایک تھا، اس کے ختم ہونے سے صرف ایک سپر پاور رہ گئی۔ جب تک سوویت یونین زندہ تھا دنیا کے پاس دو آپشنز تھے اور دونوں سپر پاورز کی زیادہ تر توانائیاں ایک دوسرے کو کائونٹر کرنے میں لگتی تھیں۔ دونوں سپر پاورز اپنا پلہ بھاری کرنے کے لیے چھوٹے اور خاص طور پر اسلامی ملکوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے کچھ نہ کچھ لالچ دیتے رہتے تھے۔ اس طرح دنیا کسی حد تک بیلنس آف پاور کے اصول پر چل رہی تھی۔ دنیا پر مکمل بادشاہت حاصل کرنے کے لیے مغرب نے سوویت یونین کے خلاف اپنے مفاد کی لڑائی کو اسلامی جہاد سے تعبیر کر کے ایسا پتا کھیلا کہ سوویت یونین چاروں شانے چت ہو گیا۔ اِس عمل میں عملی آلۂ کار بننے والے تمام لوگ مسلمان تھے۔ انٹرنیشنل مخصوص لابیاں جانتی تھیں کہ اسلام کے نام پر کمزور سے کمزور مسلمان بھی بڑی سے بڑی طاقت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کے اسی جذبے کو ایکسپولائٹ کیا۔ جیسے اوپر لکھا گیا کہ اسلام کی محبت سے سرشار عام لوگ تو اس سازش سے بے خبر تھے ہی مگر اسلامی ممالک کی حکومتوں خاص طور پر پاکستان کی حکومت نے بھی جانتے بوجھتے ہوئے اس جوئے میں ایک طاقت کو جتوانے میں سب کچھ لٹا دیا۔ اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں کی ایک شاید مبینہ سائیڈ لائن پلاننگ یہ تھی کہ سوویت یونین کا مردہ دبانے کے بعد انہی مجاہدین کو کشمیر آزاد کرانے کے لیے استعمال کریں گے مگر ابھی سوویت یونین کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ اس سائیڈ لائن پلاننگ کے ماسٹر مائنڈ پاکستانی حکمران جنرل ضیاء الحق کو ہوا میں ہی ختم کر دیا گیا اور اُن کا منصوبہ اُن کے ساتھ ہی ہوا ہو گیا۔ البتہ اس ”ہاف کُکڈ“ منصوبے کا آگ آلود ملبہ دہشت گردی کی صورت میں پاکستان کے کونے کونے میں بکھر گیا۔ پاکستان کے اندر تو یہ سب کچھ ہو گیا مگر بیرونی دنیا میں بھی بہت کچھ ہو گیا۔ اب صرف ایک سپر پاور تھی۔ دنیا کی بس کو چلانے کے لیے صرف ایک ڈرائیور جسے وہ اپنی مرضی سے جیسے چاہے ڈرائیو کرے۔ یہاں کچھ ایسے نکات ہیں جن پر کیا اب بھی تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے؟ کمیونزم کے خلاف پاکستان اور اسلامی دنیا میں پھیلایا جانے والا خوف کیا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے مخصوص انٹرنیشنل لابی کا پراپیگنڈہ تو نہیں تھا؟ سوویت یونین کے خلاف آلۂ کار بننے کے لیے پاکستانی فوجی ڈکٹیٹروں جنرل ایوب اور جنرل ضیاء نے اپنے دورِ حکومتوں میں جان توڑ محنت کی لیکن پاکستانی سیاست دان بھی نوکری حاصل کرنے کے لیے کسی سے پیچھے نہیں رہے اور اس کی ابتدا شاید اُس وقت ہوئی جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے پہلے آنے والے روس کے دعوت نامے کو نظرانداز کر دیا اور بعد میں آنے والے امریکی دعوت نامے کو قبول کر لیا۔ گویا پاکستانی سیاست دان ہوں یا کوئی اور، دونوں امریکہ کے لیے ٹھنڈی سڑک ہی ثابت ہوئے۔ اگر انٹرنیشنل طاقتیں اپنے مفاد کے لیے عقل استعمال کر رہی تھیں تو ہم اتنے بیوقوف کیوں تھے کہ اُن کی باتوں میں آ گئے؟ اگر ایسا تھا تو پھر بیوقوفی کی سزا ضرور ملتی ہے۔ اگر ہمارے اُس وقت کے حکمران اپنے ذاتی اقتدار کیلئے عوام کے معصوم جذبات کو استعمال کر رہے تھے تو کیا اُن حکمرانوں کو ہسٹری میں سزا نہیں ملنی چاہیے؟ آج کل سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ کیا یہ بھی اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین کو ختم کرنے میں ساتھ دینا ایک تاریخی غلطی تھی؟ اور اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو شاید ہمارا خطہ یکطرفہ خون اور آگ میں نہ نہاتا۔

تبصرے بند ہیں.