چند درجن افراد کی امپورٹ ہی کافی

87

گندم کی کبھی ایکسپورٹ اور کبھی امپورٹ، چینی کی کبھی ایکسپورٹ اور کبھی امپورٹ۔ زرعی ملک کے عوام کو قحط کے معنی سمجھا گئی۔ ایک قحط ہوتا ہے کہ پیسے جیب میں ہیں اور اناج نعمتیں نہیں اور دوسرا قحط کہ نعمتوں اور اناج کے انبار لگے پڑے مگر خریدنے کی قوت نہیں بلکہ ونڈو شاپنگ یعنی پٹرول کے مہنگے ہونے کے سبب باہر نکلنے کی بھی ہمت نہیں۔ قریبی رشتے دار اور دلدار دور ہو گئے۔ لائیو کال کی سہولت تو ہر ایک کو ہو گی مگر میل ملاقات، بیگانے کسی اور معاشرہ میں ایسے نہ ہوئے جیسے ہماری معاشرت میں بسنے والوں کی اکثریت ہو گئی۔ یہ حادثہ ایک دم نہیں ہوا، نہ ہی کسی ایک ادارے کا تعلق ہے۔ سب نے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ لالچ، بزدلی، عہدہ، کثرت کی خواہش اور زندگی کے لامحدود ہونے کے وہم نے معاشرت کو برباد کر کے رکھ دیا۔ کچھ لوگ بڑی باریکی سے کاریگری سے لکھتے اور بولتے ہیں کہ جی 12 مئی اور 9 مئی گزر گیا، اب آگے چلنا چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کی پریس کانفرنس میں سمجھتا ہوں، انہوں نے ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کر دیا کہ 9 فروری کے ملزم اور ماسٹر مائنڈ معافی مانگ لیں۔ اس کا طعنہ دینا شروع کر دیا گیا۔ ڈھٹائی اور کذب کا یہ عالم ہے کہ اس واقعہ پر فخر بھی کرتے ہیں اور ذمہ داری بھی نہیں لیتے۔ اگلے روز محسن بیگ صاحب کا انٹرویو سن رہا تھا۔ اس نے بانی پی ٹی آئی کو کنگلہ کنگلہ اور کسی کے مال پر پلنے والے کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہ بولا۔ انہوں نے اس کو لانے والوں کو بھی برابر کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے فالوور اس کو نہ جانے کس اعلیٰ درجے پر فائز کرتے ہیں جبکہ اس کی اخلاقی حالت کا اندازہ لگائیں ایک دفعہ محترمہ مریم نواز شریف کو اپنی تقریر میں مخاطب کر کے کہتے ہیں ”او مریم میرا نام کم لیا کرو تمہارا شوہر ناراض ہو جائے گا“ اندازہ کریں کہ یہ اپنی تعریف خود کیا بیان کرتے ہیں۔ محترمہ مریم نوازشریف ان تھک محنت کر رہی ہیں اور عوامی فلاح و ریلیف اور آسانیوں کیلئے نئے نئے پروگرام، منصوبے لا رہی ہیں۔ الیکٹرک موٹرسائیکلوں کے معاملہ میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب نے حکم امتناعی دیا اور جو وجہ پڑھنے میں آئی ہے وہ لاجواب ہے کہ ’’لڑکے لڑکیوں کے کالج سکول جائیں گے، ون ویلنگ کریں گے‘‘ کیا عدالت کے خیال میں یہ الیکٹرک موٹرسائیکل جو محترمہ مریم نوازشریف نے لوگوں کو دینی ہیں یہ لڑکے ان کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور ون ویلنگ کے واقعات کیا آج کے ہیں۔ اگر کبھی فیز 6 ڈی ایچ اے لاہور کا خصوصاً چھٹی کے دن چکر لگے تو لاکھوں نہیں کروڑوں کی موٹرسائیکل جس رفتار کے ساتھ جس خوفناک طریقے اور رویے کے ساتھ چلتی دکھائی دیتی ہیں، کاروں والے پناہ مانگتے ہیں۔ عدالت عدالت ہے، حکم جاری کر سکتی ہے لیکن کیا یہ انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت نہیں ہے؟ کیا یہ سیاست میں مداخلت نہیں ہے؟ یہ سوال تو ان 6ججوں سے پوچھنا چاہیے جو مداخلت کی نشاندہی اور تعریف کرتے ہیں۔ حکومت ملکی معیشت جس کو نریندر مودی نے اگلے روز ایک تقریر میں کہا ’’پاکستان دو وقت کی روٹی کھا لے، بڑی بات ہے‘‘۔ ہم بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ویسے اگر پاک فوج کی دھاک نہ ہو تو بھارت آگے ہی نہ نکل جائے بلکہ پاکستان کو نگل جائے، حکومت معیشت کی بحالی کے لیے نجکاری کے حوالے سے مختلف منصوبے بنا رہی ہے۔ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز یا دیگر بڑے ادارے جو خسارے میں ہیں انکو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے پہلے بیوروکریسی کے بڑے گھر فروخت کرے اور اوورسیز پاکستانیوں کو پہلی آفر کرے۔ سرکاری زمین ان کو فروخت کرے، ادارے فروخت کرنے سے پہلے ان کے مہتمم ہی امپورٹ کر لے۔ سو ڈیڑھ سو اعلیٰ عدلیہ کے لیے ججز کی خدمات کچھ ماتحت عدلیہ کے لیے، کچھ اعلیٰ آفیسران پولیس، جیل، انتظامیہ جسے ڈی ایم جی کہتے ہیں کی 3 سے 5 سال کے لیے سروسز ہائر کرے۔ ان کو پروٹوکول کی عادت بھی نہ ہو گی اور نہ ہی کسی ایسی جانبداری کا شکار ہوں گے کہ کوئی ساس فون کر دے، جوائی ایم پی اے ہو جائے، سمدھی زمین کے کاروبار میں ہو۔ مالیاتی اداروں میں زیادہ سے زیادہ 50 لوگوں کی خدمات چاہئیں تو میرے خیال سے کوئی ادارہ فروخت نہیں کرنا پڑے گا۔آج ایم بی ایس کا دورہ ملتوی ہونے کو پتہ نہیں کیا کیا تاویلیں کر رہے ہیں۔ جب وطن عزیز کے ناکام ترین نااہل ترین حکمرانی کے دور میں ایم بی ایس آئے تھے ’’گھڑی کا کیس ہوا تھا‘‘ وہ حکمران تو خود کہتا تھا کہ وطن عزیز میں کرپشن ہے تو اس وقت کوئی کیسے سرمایا کاری کر سکتا تھا؟ جو حکمران ڈیووس امریکی صدر کو دو کاروباری دوستوں کا تعارف کرائے کہ یہ نہ لے کر آتے تو میں نہیں آ سکتا تھا۔ اس سے بڑا ڈراما اور مافیا پرور کوئی ہو سکتا ہے۔ عمران دور میں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا، ایجوکیشن مافیا، ہسپتال مافیا، اخلاق باختہ مافیا، عدالتی مافیا، پاکستان مخالف مافیاز نے خوب ترقی کی۔ آج بھی یہ مافیاز اس کے ہمدرد ہیں۔ دفاع کے علاوہ دیگر اداروں میں کافی گنجائش موجود ہے کیونکہ آزادی کی کھیر ہماری بیورو کریسی کو ہضم نہیں ہو رہی لہٰذا گندم امپورٹ کرنے سے بہتر ہے افراد امپورٹ کریں، پروٹوکول ختم کریں، مہنگائی اور لاقانونیت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ سول سپرامیسی والے دانشور 2018ء کے انتخابات، 2014ء کے دھرنے، 2017ء میں قائم حکومت کو عدالت کو آلہ کار بنا کر چلتا کرنے کے واقعات پر لکھنے کی جرأت کریں، ویسے بھی سچ جان کر جئیں۔ باجوہ صاحب اور حافظ سید عاصم منیر شاہ میں فرق جان کر جئیں۔ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کھوسہ اور ثاقب نثار میں فرق جان کر جئیں۔ کلٹ اور کلچر میں فرق جان کر جئیں۔ اگر ہو توفیق میسر تو نئے پاکستان میں پھوٹنے والی اخلاقی، خلاف معاشرت بیماریاں بھی لکھ دیں۔ کوئی ایک نظریہ یا خوبی بیان کر دیں اور کیا یہ لکھ سکتے ہیں کہ قادیانی، یہودی، بھارتی اور پاکستان مخالف قوتوں کی نمائندگی کون کر رہا ہے۔ ففتھ جنریشن وار، اسرائیل، یہودیوں اور بھارتیوں کے زور پر پاکستانی سیاست میں کون خبروں میں رہتا ہے۔ اگر جانبداری کو ہم نے ترک نہ کیا تو تاریخ ہمیں ترک کر دے گی۔ ادارے نہیں اداروں کو چلانے والے افراد درکار ہیں۔

تبصرے بند ہیں.