اِبن مریم ہوا کرے کوئی

65
ہمارے ملک میں چند اَیسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جو مہذب دْنیا کے کسی مسلم یا غیرمسلم ملک میں نہیں ملتیں۔ (۱) ہمارے یہاں پولیو اَب بھی پایا جاتا ہے اَور اس کی دوائی پینے میں ہمیں ہچکچاہٹ ہے۔ (۲) پیدائش کے بعد موذی بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے میں بھی ہمیں مسئلہ ہے اَور یہ ٹیکے ہمیں بیرونی سازِش محسوس ہوتے ہیں۔ (۳) ہمارے یہاں غیرت کے نام پر قتل ہونا عام بات ہے اَور عام عوام اِسے برا بھی نہیں سمجھتی۔ (۴) ہمارے ملک میں جرگہ کے نام پر ایک متوازی عدالتی نظام موجود ہے جو لوگوں کو خوف ناک سزائیں سناتا ہے اَور ان پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ حکومت اِس حوالے سے بالکل بے بس ہے۔ (۵) ہمارے ملک میں اِسلام ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اَور اْسے بچانے کے لیے ہمارا بچہ بچہ سربکف ہے۔ (۶) ہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دْنیا میں اِسلام کا جھنڈا گاڑنے کا فرض ہمارے ناتواں کاندھوں پر ہے اَور دْنیا کے ہر شخص کو مسلمان کرکے ہی دم لینا چاہیے۔ (۷) عوام کا ایک بڑا حصہ آج بھی دہشت گردوں کو مجاہد سمجھتا ہے اَور ان کی مدد کرنا یا کم از کم اْن کے لیے دْعائیں مانگنا بھی ضروری مانتا ہے۔
اِن تمام مسائل یا بیماریوں کا علاج اگر ہم نے نہ کیا تو ہم قیامت تک یونہی ڈگمگاتے، لڑھکتے رہیں گے اَور کبھی بھی اَپنی منزل پر نہیں پہنچ پائیں گے۔ مہذب دنیا کے ملکوں میں کبھی بھی ہمارا نام نہیں لکھا جائے گا۔ لیکن علاج کرنے کے لیے دو مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو مریض کو اِس بات کا اِحساس ہونا چاہیے کہ وہ بیمار ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی معالج کے پاس جائے جو اسے دوا تجویز کرے۔ مریض اس دوا کا باقاعدہ اِستعمال کرے۔ جتنی پرانی اَور خوفناک بیماری ہو، اس کا علاج اتنی ہی دیر لیتا ہے۔ چنانچہ مریض نے صبر سے علاج کروانا ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمیں یہ بیماریاں کیوں لگی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ دِیگر مہذب اَور ترقی یافتہ مسلم ممالک میں یہ بیماریاں نہیں پائی جاتیں۔ جو سب سے بڑا فرق ہم میں اَور ان ممالک میں پایا جاتا ہے وہ تعلیم و تربیت کا ہے۔ اِس میدان میں ہم بالکل پیدل ہوچکے ہیں۔ آج سے ساٹھ سال قبل ہم اَیسے نہیں تھے۔ تب اسکولوں اَور دِیگر تعلیمی اِداروں میں بہت اَعلیٰ معیار کی تعلیم و تربیت کی جاتی تھی۔ تب ہمارے یہاں یہ مسائل بھی نہیں تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری توجہ تعلیم سے ہٹ کر دولت کمانے کی طرف ہوگئی۔ اَب سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ وہ تعلیم جو پیسہ کماکر نہ دے اْس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چنانچہ بہتر ہے کہ تعلیم پر وقت اَور پیسہ بربادکرنے کے بجائے اْنھیں دولت کمانے میں صرف کیا جائے۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ ہم ہر میدان میں گرنے لگے۔ ہماری سوچ آگے جانے کے بجائے پاتال کی طرف چلنے لگی۔ ہمارے یہاں نت نئے مسائل پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ اَب ہم مسائلستان بن چکے ہیں اَور ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ڈور کا وہ سرا کہاں ہے جو اگرہاتھ آجائے تو ہم اِس گنجل کو سلجھا لیں گے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پر روسی حملے کے بعد ہمیں یہ بتایا گیا کہ اِسلام خطرے میں آگیا ہے اَور اِسے بچانے کی ذِمہ داری ہم ہی پر عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ اِسلام کا دوسرا نام جہاد ٹھہرا۔ ہم  نے قتال کو جہاد سمجھا اَور یہ نہیں جانا کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں اِسی لیے اِن کے مختلف نام ہیں۔ ہم  نے یہ حدیث پہلی بار سنی کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ اِس کا مطلب ہم نے یہ نکالا کہ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ تلوار اٹھائی جائے۔ مزید یہ کہ تلوار کا راستہ جنت میں جانے کا آسان ترین اَور نہایت مستند طریقہ ہے۔ چنانچہ ہر طرف جہاد جہاد کے نعرے بلند ہونے لگے۔ بقول ڈاکٹر اِسرار احمد کے وہی جہاد فی سبیل اللہ بعد میں فساد فی سبیل اللہ میں تبدیل ہو گیا۔ اَب ہم اْس فساد کے ثمرات سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہمارے ملک کے لاکھوں بیگناہ شہری اَپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایک مومن کا ناجائز قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا و مافیہا کی تباہی سے بڑھ کر جرم ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ ہمارے ملک میں یہ جرم اِسلام کے نام پر ہی کیا جا رہا ہے اَور بیشمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اِس کا ایک اَور نتیجہ یہ نکلا کہ ہم میں برداشت نام کی چیز ختم ہوگئی۔ اِنسانی جان کی حرمت کا اِحساس بھی جان سے گیا۔ اَب ذرا ذراسی بات پر قتل ہوجاتے ہیں۔ بیشمار بیگناہوں کا قتل اِس ملک کے لوگوں نے ثواب سمجھ کر کیے۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آرمی پبلک سکول، پشاورکے معصوم بچوں کو بیدردی سے قتل کیا انھوں نے بھی یہ کام جہاد سمجھ کر کیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا جہاد کا نظریہ ہی غلط ہے اَور اِس کی وجہ سے قوم کا ایک بڑا حصہ گمراہ اَور بیراہ روی کا شکار ہے۔ جو شخص کسی معصوم اِنسان کی جان لینے کو ثواب سمجھتا ہو اْس کا اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
قوم جہالت اَور گمراہی کے کینسر میں بری طرح مبتلا ہے۔ اِس کا علاج کیموتھیراپی، ریڈیو تھیراپی اَور بعض جگہوں پر آپریشن ہے تاکہ کینسرزدہ حصوں کو جسم سے الگ کردِیا جائے۔ کینسر کا علاج نہایت طویل، تکلیف دِہ اَور مہنگا ہوتا ہے۔ مریض کو لگتا ہے کہ وہ ایک مصیبت سے نکلنے کے لیے دْوسری مصیبت میں مبتلا ہوگیا ہے۔ لیکن دراصل وہ صحت کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے مقتدرہ حلقوں کو بھی اَب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اِس مریض کے کینسر کا علاج اگر نہ کیا تو وہ دِن دور نہیں کہ قوم بالکل ہی فوت ہوجائے گی۔ اَبھی بھی اگر دیکھا جائے تو پاکستانی ایک قوم نہیں ہیں۔ قوم کی کوئی خصوصیت اِن میں نہیں پائی جاتی۔ یہ ایک ہجوم ہے جو ایک جگہ رہنے پر مجبور ہے۔ موقع ملتے ہی یہ ایک دْوسرے کو کاٹنے اَور بھنبھوڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے غریب آدمی سے لے کر بڑے بڑے امیر اِنسان تک سب ہی موقع ملنے پر دوسرے کا نقصان اَور اَپنا فائدہ کرنے کو نہ صرف جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ملک کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ ہر کوئی صرف اَپنی ذات کے طواف میں مصروف ہے۔
چنانچہ حکومت اَور میڈیا کو اِسے اَپنا فرض سمجھنا چاہیے کہ قوم کو جہالت اَور گمراہی کے اَندھیروں سے نکالیں۔ ہم سب ایک ہی جہاز کے سوار ہیں۔ اگر یہ جہاز ڈوبا تو سب ہی غرق ہوں گے۔ مقتدر لوگوں نے یہ خطرہ بھانپ بھی لیا ہے۔ لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ ان سب کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے۔ وہاں ان کی جائیدادیں بھی ہیں۔ جب بھی انھوں نے دیکھا کہ اِس ملک کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے تو وہ اَپنے اَپنے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہوجائیں گے۔ عوام اَپنی جہالت اَور گمراہی کی زنجیروں کے بوجھ سے سمندر میں غرق ہو جائے گی۔
ہمیں اَیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جیسے دِیگر ممالک میں آئے اَور اْنھوں نے ملکوں کی قسمت بدل دی۔ ڈوبتی ہوئی قومیں آج بامِ عروج پر پہنچی ہوئی ہیں۔ آپ اَپنے چاروں طرف دیکھیں۔ آپ کو کئی مثالیں ملیں گی۔ براہ مہربانی اَیسے لوگ تلاش کریں جو ہمارے لیے اِبن مریم کا کام کریں اَور اِس قوم کے دْکھ کی دوا کریں۔

تبصرے بند ہیں.