ملک میں رائج جنگل کا قانون۔۔۔

21

جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا محاورہ کتابوں میں پڑھتے اور لکھتے تھے ایک اور محاورہ تھا کہ تگڑے دا ستیں وی سو، مطلب ہے کہ عام بندے کا پانچ کے بدلے سو ہے جبکہ چھتر والے کا سات کے بدلے بیس والا سو بنتا ہے۔ آج ملک میں دونوں مثالیں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ امیر اور غریب کے لیے الگ قانون ہے، تھانے کچہریوں میں چلے جائیں وہاں بھی ماڑے بندے کی کوئی وقعت نہیں اور ڈنڈے والے کی آئو بھگت کی جاتی ہے۔ اسی لیے قومیں تباہ ہوتی ہیں کہ چھوٹے چوروں کو سزا ہو جاتی ہے اور بڑے مجرموں کو کوئی نہیں پوچھتا، وہ سیاست میں ہوں، صحافت میں ہوں، عدالتوں میں ہوں، بوٹوں والوں میں ہوں یا پولیس ہو ان کی بدمعاشی کا طوطی بولتا ہے۔ دوسری طرف ہر دور میں حکمرانوں نے اپنے کالے پیلے کام کرانے کیلئے پولیس کو نوازا۔ ہر ادارے میں ڈائون سائزنگ ہوتی ہے، معاشی مسائل ہوتے ہیں لیکن محکمہ پولیس میں بغیر مانگے ہی نوازشات کی بارش کر دی جاتی ہے۔ جیسے آئی جی پنجاب عثمان انور نے منہ کھولا ہی تھا کہ 14 ارب مل گئے لیکن ان اربوں روپے کی وجہ سے لاہور سمیت پنجاب بھر میں شہریوں کو سستا انصاف ملا اور نہ ہی جرائم کا خاتمہ ہو سکا۔ آج بھی ناکوں پر پکے کے ڈاکو لوگوں کے منہ سونگھتے نظر آئیں گے آج بھی تھانوں میں شہریوں سے بد تمیزی، تذلیل معمول ہے۔ آج بھی رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، آج بھی ناجائز پرچے کاٹے جا رہے ہیں، آج بھی جعلی پولیس مقابلے ہو رہے ہیں۔ 2023 میں 99 مقابلوں میں 156 ملزمان مارے گئے صرف 2 پولیس والے ہلاک ہوئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکو اپنے ہی ساتھیوں کی گولی سے ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اہلکاروں کو کچھ نہیں ہوتا؟ اس بارے میں عدلیہ سمیت کسی بھی حساس ادارے نے آج تک نوٹس نہیں لیا۔ اس سے لگ رہا ہے کہ واقعی ملک میں جنگل کا قانون ہے؟ جیلوں میں روزانہ لاکھوں روپے کی دیہاڑیاں لگتی ہیں۔ دوسری طرف جو پنجاب کا والی وارث آتا ہے وہ سوا سیر ہی آتا ہے اور وہ ایسے پولیس کی جی حضوری کرتا ہے جیسے ہم شروع سے امریکہ اور سعودیہ کی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے پاسنگ آؤٹ پریڈ میں آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ 7 ہزار خواتین پولیس اہلکار کم ہیں ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ایک طرف خزانہ خالی اور کشکول کے پیسے سے ملک چلا رہے ہیں تو دوسری طرف خزانے پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں۔ مریم نواز نے جذباتی انداز میں فرمایا کہ آپ کی تمام تر ہمدردیاں مظلوم کے لیے ہونی چاہیے، ظالم کے لیے دل میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، ظالم کو سزا دینی ہے حالانکہ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ پنجاب پولیس تو خود جرائم میں ملوث ہے۔ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب میں 2 سو سے زائد پولیس افسران اور اہلکار مبینہ طور پر منشیات فروشوں کی سہولت کاری میں ملوث ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق لاہور سمیت 10 اضلاع کے 234 پولیس افسران اور اہلکاروں کی فہرست تیار کی گئی فہرست میں شامل لاہور کے 30 پولیس ملازمین منشیات فروشوں کے سہولت کار ہیں یا مبینہ طور پر براہ راست منشیات فروشی میں ملوث ہیں، پنجاب بھر میں 35 اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ منشیات فروشی میں ملوث اہلکار بطور سب انسپکٹر، اے ایس آئی، کانسٹیبل اور ڈرائیور مختلف تھانوں میں تعینات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جیو ٹیگنگ کے مطابق منشیات فروشوں کی سہولت کاری میں ملوث صرف 2 اہلکار جیل میں تعینات ہیں، کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے متعلقہ منشیات فروش گینگز کی تفصیل بھی رپورٹ میں شامل ہے۔ اس پر کہا گیا کہ بھئی ہر جگہ غلط لوگ ہوتے ہیں تو یہاں یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگرچوکیدار ہی چور بن جائے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے؟ عدالتوں نے بھی کئی بار کہا کہ پولیس میں کرپٹ افراد بیٹھے ہیں لیکن اس بارے میں کارروائی کوئی نہ کی جو عدلیہ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم نہیں بنے تھے توکہا کرتے تھے پنجاب پولیس بدمعاش پولیس ہے، اسے سیدھا کروں گا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد وہ بھی محکمہ پولیس کے قصیدے پڑھنے لگے اور جب ساہیوال واقعہ ہوا تو موصوف غیر ملکی دروے پر تھے وہاں سے فرمان جاری کر دیا کہ واقعہ میں ملوث پولیس والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ پولیس والے باعزت بری ہو گئے۔ پولیس مظلوم کو انصاف فراہم نہیں کرتی بلکہ خود کشیوں پر مجبور کرتی ہے، استاد کا احترام کرتی ہے نہ عدالتوں کا؟ ہر سال ملک میں سیکڑوں لوگ پولیس تشدد سے حوالاتوں میں ہلاک ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی اہلکار کو سزا نہیں ملی۔ یہ پولیس ہی ہے جسے حکمران طبقہ مخالف سیاستدانوں کو نکیل ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے، سیاستدان اپنی مرضی کے ایس ایچ اوز تھانوں میں لگواتے ہیں، وہ ان کی مرضی سے ایک کام کرتے ہیں تو دس بارہ اپنی مرضی سے بھی کر لیتے ہیں۔ باقاعدہ تھانے بکتے ہیں جو گڑ زیادہ ڈالے اتنا ہی میٹھا تھانہ ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اگر پولیس کا محکمہ ٹھیک ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا عزم سیاستدانوں کے منشور میں بھی ہوتا ہے اور بعد میں یہ نعرہ دیگر نعروں کی طرح مٹی پائو بن جاتا ہے۔ آج پولیس سے لوگ مایوس ہو گئے ہیں جس سے معاشرے کا نظام چلانا ممکن ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ وردی بدلی لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی تھانہ کلچر تبدیل نہ ہو سکا، تھانوں اور دفتروں میں چٹ سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ لوگ بلا روک ٹوک پولیس افسران سے مل سکیں۔ خاص و عام کا فرق ہمارے ملک میں ختم ہو گیا تو آدھے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ ملک میں جب بھی کوئی نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو وہ سب سے پہلے پولیس فورس میں رد و بدل کر کے من مرضی کی تعیناتیاں کرتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں پولیس بھی اپنے رویے اور ساکھ کا بذات خود جائزہ لے اور جب تک محکمہ پولیس میں احتساب کا عمل شروع نہیں ہوتا تب تک لوگوں کو انصاف نہیں مل سکتا اس کیلئے ضروری ہے وزیر اعلیٰ پنجاب تھانوں کے بھی خفیہ دورے کریں تو ہوش ربا انکشاف ہوں گے؟

تبصرے بند ہیں.