زہرلیے خطوط، پہلا فیصلہ، بری خبریں

50

پورا ملک زہریلے خطوط کی لپیٹ میں آ گیا، ہر طرف خطوط کا چرچا، ”ان کے خط آنے لگے یعنی کہ خط آنے لگے“ 6 ججز کے خط کے بعد 25 دھمکی آمیز خطوط، ججز کے خط سے دباؤ بڑھا، دھمکی آمیز خطوط سے خوف پھیل گیا، نئی ڈرامہ سیریل کا آغاز، خطوط کھولنے والے خوفزدہ، معاملہ بند گلی میں، مجرم نامعلوم بے چارا قاصد پکڑا گیا، رہے نام اللہ کا، فرانزک رپورٹ میں انکشاف خطوط سے 10 فیصد مقدار میں لیتھل آرسینک (سنکھیا) برآمد ہوا۔ خطرناک زہر 70 فیصد سے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ موت واقع ہو سکتی ہے۔ خطوط پر ریشماں نامی کسی لڑکی کا نام (ریشمہ) درج، کیسی جاہل لڑکی ہے اپنا نام صحیح نہیں لکھ سکتی ججوں پر تیر کمان سیدھے کرنے لگی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت 25 جج نشانہ، محبوب کے خط نہیں کہ دل میں چھپا کے رکھے جائیں کسی بڑی کارروائی کی تیاری ہے؟ چیف جسٹس نے ججوں کے خط پر مشاورت کے بعد جوڈیشل کمیشن کے لیے وزیر اعظم کو دو نام دیے۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو دوبار رابطہ کے بعد سربراہ نامزد کر دیا۔ تیسری بار انکار، وجہ؟ ماشاء اللہ صاحبزادے ہی مخالف نکلے انہوں نے 3 سو وکلا کے ساتھ مل کر جوڈیشل کمیشن کی مخالفت کر دی، گھر گھر کی کہانی، پوری قوم یوتھ کی نس نس میں زہر بھر دیا گیا۔ والد محترم دباؤ میں آ گئے مقابلہ نہ کر سکے۔ 90 لاکھ وکلا میں 3 سو کی کیا حیثیت، لیکن پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر ہاہاکار، ایک کروڑ 85 لاکھ ٹوئٹس، ویڈیوز، وائس کالز، با عزت اور شریف آدمی نے پسپائی ہی میں عافیت جانی، بات دور تک جاتے جاتے رک گئی، مگر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی وکلا قیادت (آج کل خیمہ میں وہی موجود ہے) کے مطالبہ پر سوموٹو نوٹس لیا اور سات رکنی بینچ بنا دیا۔ خیمہ سے فل کورٹ کی صدائیں، ججز کہاں سے لائیں، دو بینچ کراچی اور لاہور میں سماعت کر رہے ہیں، کالا کوٹ پہنا کر یوتھیوں کو وکیل تو بنایا جاسکتا ہے۔ جج بنا مشکل ”اس میں لگتی ہے محنت زیادہ“ چیف جسٹس نے ابتدائی سماعت میں رنگ ڈھنگ دیکھا بینچ میں بیٹھے ایک فاضل جج کے مکالمے سنے اور سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی، فل کورٹ بنانے کا عندیہ بھی دیا، فل کورٹ میں کتنے چہرے بے نقاب ہوں گے؟ کون کس کی محبت میں بے قرار ہے۔ 6 ججز، 12 ججز، 3 سو وکلا کو بتانا ہوگا ثابت کرنا ہوگا کہ کس نے مداخلت کی۔ مداخلت ہوئی تو ایف آئی آرز کیوں درج نہ کرائی گئیں۔ توہین عدالت میں کیوں طلب نہ کیا گیا۔ کہنا آسان ثبوت مشکل، مقصد مبینہ طور پر عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں کو ماضی کے قصہ ہائے پارینہ میں الجھائے رکھنا ہے۔ خط کہاں سے کدھر سے کیوں آئے؟ حاصل حصول کچھ نہیں، بڑے ججوں کو الجھا کر چھوٹوں نے دھڑا دھڑ فیصلے کرنا شروع کردیے۔ ایک دن میں پانچ بڑی خبریں، توشہ خانہ کیس میں میاں بیوی کی 14 سال قید کی سزا معطل کیا توشہ خانہ کے تحائف بیچے نہیں گئے، انصاف ہوتا نظر آتا؟ سزا معطل ہوئی جرم برقرار عید بعد سماعت ہوگی خان کی 6 مقدمات میں ضمانت، فواد چوہدری کی مقدمات میں گلوخلاصی، زرتاج گل پنڈی عدالت میں پیش اگلے پچھلے مقدمات میں ضمانت، علی امین گنڈا پور کے وارنٹ گرفتاری منسوخ، حماد اظہر سانحہ 9 مئی میں ملوث ایک سال سے روپوش تھے۔ پشاور ہائیکورٹ نے 51 منٹوں میں 51 مقدمات میں ضمانت منظور کرلی۔ چلو چلو پشاور چلو، جس کو ہو جان و دل عزیز پشاور کا رخ کرے، پی ٹی آئی کے لیے خوش خبریاں، ڈھول باجے تاشے، یوں لگا جیسے سانحہ 9 مئی ہوا ہی نہیں ہوا ہے تو اتنی تیزی اور پھرتی سے سہولت کاری کیوں، اسپیس کیوں دی جا رہی ہے۔ کیا سب کچھ الٹ پلٹ ہونے جا رہا ہے۔ خان اتنے خوش کہ ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بشریٰ بی بی کو علیحدگی میں ملاقات کی اجازت مل گئی۔ فرشتے اور موکل بھی نہیں ہوں گے۔ اب تک دس بار مل چکی ہیں زہر خورانی کا ڈرامہ بھی فلاپ ڈاکٹروں نے الزامات کی تردید کردی۔ حبیب جالب یاد آگئے۔ ”دستور“ پڑھنے پر جیل میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ اہلیہ آنکھوں میں آنسو لیے ملاقات کو آئیں، شکوہ کیا گھر میں راشن ختم، فاقہ کشی کی نوبت آگئی محلے کے دکاندار نے ادھار دینا بند کردیا۔ جالب کیا جواب دیتے، سنتری نے کہا ملاقات کا وقت ختم ہوگیا۔ جالب نے ایک شعر میں ملاقات کی روداد سنا دی۔ ”جو ہو نہ سکی بات وہ چہرے سے عیاں تھی، حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی“ خان خوش قسمت بشریٰ بی بی خوش بخت، تمام سہولتیں حاصل، 12 لاکھ ماہانہ کا کھانا، 12 گارڈ، پاکستانی تاریخ میں پر آسائشیں قید کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی، سہولت کاروں کے طفیل پی ٹی آئی کی پوری کچن کیبنٹ ہفتہ میں دو دن جیل کی 6 بیرکوں پر مشتمل ”پارٹی سیکرٹریٹ“ میں اجلاس کرتی ہے اور جیل سے باہر کی ”خاموش“ حکومت کو گرانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

خطوط نویسی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سپریم کورٹ کی مشروط اجازت کے بعد گزشتہ دنوں سانحہ 9 مئی کے پہلے فیصلہ نے پریشان کر دیا، گوجرانوالہ کی راہوالی فوجی چوکی پر حملہ کرنے والے 51 مجرموں کو پانچ پانچ سال قید اور 20 ہزار جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ ان میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے کلیم اللہ بھی شامل تھے۔ کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف عید بعد چالان پیش کیا جائے گا۔ پارٹی پر پابندی کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ سانحہ 9 مئی کے مزید فیصلوں کا بھی امکان ہے۔ عید کے بعد ٹیریان کیس کی سماعت بھی متوقع، ایک سوال پر فیصلہ بیٹی ہے یا نہیں، درخواست گزار شہری ساجد خان ثبوت جیب میں لیے گھوم رہے ہیں۔ سائفر کیس، 190 ملین پاؤنڈ کیس بھی زیر سماعت ہیں۔ رد عمل میں دباؤ بڑھانے اور کھل کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اوپر سے تھوڑی سی ڈھیل نے رنگ دکھایا۔ جیل انتظامیہ نے خیمہ میں موجود وکلاء سے انوکھی ڈیل کرلی، چار فوکل پرسن خان سے ملاقات کرنے والوں کے نام تجویز کریں گے۔ ججوں کا خط اضطراری عمل نہیں، وکلا تحریک کا پیش خیمہ ہے۔ دھمکی آمیز زہریلے خطوط جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔ دو تین سال پہلے کی مبینہ کالوں کی بنیاد پر لمحہ موجود میں کارروائی کی استدعا، سابق چیف جسٹس کان لپیٹے نکل گئے۔ موجودہ اصول پرست چیف جسٹس کو الجھا دیا گیا۔ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘ ایک قوال کا مکھڑا یاد آیا۔ ”اے میرے آقا اے میرے مولیٰ یہ کیا ہو ریا ہے یہ کیا ہوریا ہے، جو ہوریا ہے برا ہوریا ہے“ اسپیس ملتے ہی پی ٹی آئی کی جانب سے عید بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان گرینڈ الائنس بھی بن گیا۔ 12 اپریل کو پشین میں جلسہ سے دھواں دھار آغاز، ملک بھر میں تیاریاں مکمل، ہمارے محترم اور سینئر صحافی عبداللہ طارق سہیل کے مطابق لاہور کے علاقے الکبیر کے ایک فارم ہاؤس میں مسلح جتھوں کی تیاری، اسی قسم کے جتھے خیبر پختونخوا میں بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے علی امین گنڈا پور پر واضح کردیا کہ ایرینا سے باہر کچھ برداشت نہیں ہوگا، پشاور کے کور کمانڈر کے افطار ڈنر میں وزیر اعلیٰ کو ضروری بریفنگ دی گئی مگر گنڈا پوری وزیر اعلیٰ اپنے لیڈر کے احکامات کا پابند ورنہ وزارت اعلیٰ سے محروم، لانگ مارچ کی تیاری، اسلام آباد میں دھرنے کا پلان، اسد قیصر، حماد اظہر، فیصل جاوید سب ضمانتوں کے بعد فارم میں آگئے۔ مراد سعید بھی ماچس ہاتھ میں لیے مناسب وقت کے منتظر، مقصد خان کی جیل سے رہائی۔ 25 رمضان اور عید کے موقع پر رہائی نہ ہوسکی آرزوؤں کے چراغ گل ہو گئے عید بعد کے دنوں کی امیدیں کھل کھیلنے کا فیصلہ، مولانا طاہر القادری کی طرح مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر حافظ نعیم الرحمان سے افرادی قوت فراہم کرنے کی امیدیں (حافظ نعیم الرحمان کو امیر منتخب ہونے پر دلی مبارکباد، ماشاء اللہ انقلابی شخصیت، کراچی میں جماعت اسلامی کی مقبولیت ان کی مرہون منت) پی ٹی آئی کا پورا پلان لیک ہوگیا۔ کور کمیٹی میں ابہام، اختلافات اور انتشار کے باوجود دمادم مست قلندر کا فیصلہ (قلندر خود ہی سنبھالیں گے) ٹی وی چینل خان کے ہمدردوں ”عمرانداروں“ سے بھر گئے۔ ”اس میں ملتے ہیں ڈالر زیادہ“ ہر ٹی وی چینل پر دو شاطر ہمدرد ایک معصوم سا مخالف جہاں دو مخالف وہاں اینکر پرسن دوست اور ہمدرد، ایک اسمارٹ اینکر پرسن اور ویلاگر نے بڑے وثوق سے کہا خان آئندہ 6 ماہ یا ایک سال میں جیل سے باہر ہوں گے۔ ان سے خوش نہ ہوئے بلیک لسٹ کردیا الیکٹرانک چڑیا سے خبریں لینے والے قدیم وقتوں کے تجزیہ کار نے ہوائی چھوڑی کہ جن کو قابو کرنے والی بوتل ٹوٹ گئی۔ پی ٹی آئی اکثریتی پارٹی سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں اس کے ہمدرد موجود ہیں اسی لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ماحول خان کے حق میں ہے عید بعد سارے مقدمات ہَوا میں اڑ جائیں گے۔ حیرت ہے ٹی وی پر خان کی تقریر پر پابندی لیکن ذکر خیر کی مکمل آزادی، پاکستان ویسے بھی جذباتی لوگوں کا معاشرہ ہے یہاں دھیمے لہجہ میں سچ بولنے سے زیادہ اونچی آواز میں جھوٹ بولنے پر یقین کیا جاتا ہے۔ ریٹنگ بڑھتی ہے۔ خان کی حمایت اور معصوم سی خاموش سی الجھی الجھی حکومت کے خلاف پراپیگنڈا تقویت پکڑ رہا ہے کہ حکومت آئندہ پانچ چھ مہینوں میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ حکومت کی شرافت مصلحتاً خاموشی یا روایتی بزدلی کی بدولت اوچھے ہتھیاروں کی دھمکیاں، تاہم ایک بیدار مغز نے کہا کہ سہولتیں دینے کا مقصد روپوشوں کو بلوں سے نکالنا ہے۔ اس بات کو ایک دو اہم ملاقاتوں سے تقویت ملتی ہے۔ صدر آرمی چیف ملاقات، وزیر اعظم سے مذاکرات، محسن نقوی کے دورے، آنکھیں اور کان کھول دینے والے پیغامات کا تبادلہ، شنید ہے کہ عید بعد حالات کو دیکھتے ہوئے دو صدارتی آرڈی ننس خیبرپختونخوا میں گورنر راج اور ایمرجنسی کے نفاذ کے عنوان سے جاری کیے جائیں گے۔ جو ہونا ہے وہ ہونا ہے خان عید بعد بھی باہر نہیں آ رہے ساہیوال منتقل ہوسکتے ہیں، ان کی قید میں کمی بیشی اور توسیع، توسیع ہی سے مشروط ہے۔

تبصرے بند ہیں.