توجہ کا طلب گار نظام تعلیم!!!

34

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ا صلاح احوال کا متقاضی ہے۔ اسکول ایجوکیشن ہو، کالج یا جامعات کی تعلیم ، ہر سطح پر ہمیں ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل کم ہونے کے بجائے، بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کی، انہوں نے تعلیم کو ترقی کا زینہ بنایا۔ اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں، ہمارے دوست احباب، ہمارے خاندان میں ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی، جب تعلیم نے لوگوں کو غربت کی زندگی سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مطلب یہ کہ تعلیم قوموں اور افراد کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ آج بھی اسکول میں داخل ہونے کی عمر کے ہمارے اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں میں داخلہ لینے سے محروم ہیں۔ یعنی انہیں اسکول کی شکل دیکھنا ہی نصیب نہیں ہے۔یہی حالات اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ہم اس بات پر تو فخر کرتے ہیں کہ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوان کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم تک محض چند فیصد نوجوانوں کی رسائی ہے۔ یعنی نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے۔ اس صورتحال میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان نوجوانوں کا مستقبل کیا ہو گا۔

ہمارے لئے یہ امر بھی باعث تشویش ہونا چاہیے کہ جن بچوں اور نوجوانوں کو اسکول، کالج، یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آتے ہیں، انہیں تعلیمی اداروں میں ناقص معیار تعلیم سمیت بیسیوں مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہم تعلیم سے جڑے بنیادی مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ برسوں سے ہم یہ بات سن رہے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم ناقص ہے۔ یا وہاں پر بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیوں نہیں کرتے؟آج تک ان کی نگرانی کا کوئی موثر نظام کیوں نہیں قائم کر سکے ہیں؟۔ اسکولوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیوں یقینی نہیں بنا سکے؟۔ مجھ سمیت کئی اعلیٰ تعلیم کے مسائل پر لکھتے بولتے رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیمی نظام کو کیا مسائل درپیش ہیں۔ لیکن آج تک ہم ان مسائل کا حل تلاش کرنے اور نظام کی خرابیوں کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تعلیم ہماری اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نظام تعلیم میں خرابی کی ذمہ داری کسی ایک فرد ، گروہ یا طبقے پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ برسر اقتدار رہنے والے سیاست دان، افسرشاہی، اساتذہ، انتظامیہ، خود طالب علم بھی، سب نظام میں خرابی کے ذمہ دار ہیں۔

میرا تعلق اعلیٰ تعلیم کے شعبہ سے ہے اس لئے اس کی مثال بیان کرتی ہوں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کی ذمہ داری تھی۔ کیاوفاق اور صوبوں نے اس ضمن میں پوری ذمہ داری نبھائی ہے؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ برسوں سے ہم صوبوں اور وفاق کے مابین اختیارات کی کھینچا تانی دیکھ رہے ہیں۔ مثلا آئینی ترمیم کے بعد صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن قائم ہوناتھے۔ پنجاب اور سندھ نے یہ کمیشن قائم کئے بھی۔ لیکن آج تک وفاقی اور صوبائی آپس میں تعاون کرنے کے بجائے ایک سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال کا جامعات کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ وائس چانسلروں کے دو گروپ بنے ہوئے ہیں ، کچھ وفاقی کمیشن کے ساتھ ہیں اور کچھ صوبائی کمیشن کے ساتھ۔ اصولا یہ ہونا چاہیے کہ آپس میں تعاون کے ساتھ معاملات طے کئے جائیں۔ آئین و قانون کے مطابق، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ذمہ داری ادا کی جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔بالکل اسی طرح سرکاری جامعات کو مالیاتی دباو سے نکالنے کے لئے آج تک کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی جا سکی ہے۔سب جانتے ہیں کہ پچھلے سات آٹھ سالوں سے ملک بھر کی یونیورسٹیاں مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ سرکاری جامعات کو فنڈز کے حصول کے لئے حکومتوں کیطرف دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ نجی جامعات نہیں ہیں، جو کاروباری اصولوں پر کام کرتی ہیں۔ اور جہاں انتظامیہ اپنی مرضی سے فیسیں بڑھاتی رہتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی فیس میں معمولی سا اضافہ ہو جائے تو واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ لہذا سرکار کی پالیسی سے بندھی، جامعات کی امداد کرنا حکومت کا فرض ہوتاہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سرکاری جامعات کے مالی مسائل کے تناظر میں آج تک کوئی حکمت عملی تشکیل نہیں دی جا سکی ہے۔ آج بھی بلوچستان کے یونیورسٹی اساتذہ سڑکو ں پر خوار ہو رہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یا تو سرکاری اداروں کو فنڈ دیں یا پھر انہیں بھی کاروباری ماڈل اختیار کرنے دیجئے۔

جب ہم معیار تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اس میں استاد کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یہ بات کافی حد تک قابل جواز بھی ہے۔ جامعہ کے استاد کی توجہ ہم نے کلا س روم سے ہٹا کر تحقیقی مقالوں کی طرف مبذول کر دی ہے۔ اس کی ترقی کو اور مالی فوائد کو تحقیقی مقالوں سے باندھ دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ استاد کی توجہ طالب علموں اور تدریس سے ہٹ گئی ہے۔ اس کے علاوہ آئے روز ہم جامعات میں ہونے والی ناقص تحقیق کے قصے بھی سنتے رہتے ہیں۔ افسوس کہ ہماری جامعات کے اساتذہ کی نقل اور چربہ سازی کے کچھ قصے عالمی سطح پر مشہور ہیں۔ یہ قصے ہم برسوں سے سن رہے ہیں۔ یقینا ہمارے ارباب اختیار بھی اس صورتحال سے آ گاہ ہیں۔ لیکن اس ضمن میں آج تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔ اب خالی خولی تنقیدی تقریروں سے تو یہ مسائل حل ہونے سے رہے۔

جامعات ہی سے جڑی یہ اطلاع بھی نئی نہیں ہے کہ ملک بھر کی درجنوں سرکاری یونیورسٹیاں مستقل سربراہان سے محروم ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ حکومتیں حکومتی امور میں مصروف ہیں۔ کابینہ کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ مختلف منصوبوں کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن ملک بھر کی درجنوں سرکاری جامعات ابھی تک حکومتی توجہ کی طلب گار ہیں۔ ان جامعات کے معاملات وقتی بنیادوں پر چلائے جا رہے ہیں۔ جامعہ کے پرو۔ وی سی یا پھر کسی سینئر پروفیسر کو وائس چانسلر کے عہدے کا وقتی چارج دے دیا گیا ہے۔سو تجرباتی بنیادوں پر روزمرہ امور نمٹا دئیے جاتے ہیں۔ اب ہوتے ہوتے یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے۔ غالبا چیف جسٹس صاحب نے اس ضمن میں صوبوں سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مقدمات کے انبار تلے دبی عدالتوں میں ایسے کیس جانے چاہییں؟۔ یقیناً نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ متعلقہ حکومتیں بروقت ان معاملات کا فیصلہ کر لیں۔ اعلیٰ تعلیم اتنا عام سا معاملہ نہیں ہے کہ اس کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے ۔ صوبہ پنجاب میں مریم نواز شریف نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کافی تحرک کا مظاہرہ کیا ہے۔ تعلیم کی اصلاح احوال کے ضمن میں بھی انہوں نے کئی اجلاس کی صدارت کی ہے۔ کچھ فیصلے بھی ہوئے ہیں۔ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ایک انتہائی ذمہ دار مجھے بتا رہے تھے کہ نئی وزیر اعلیٰ نے انہیں کئی ٹاسک سونپ رکھے ہیں۔یوں سمجھیں کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ کاش وزیر اعلیٰ پنجاب جامعات میں وائس چانسلروں کی تقرری کے معاملے میں ہونے والی تاخیر کا بھی نوٹس لیں ۔ تقرریوں کا پروسس شروع کریں اورجلد از جلداس معاملے کو انجام تک پہنچائیں۔

تبصرے بند ہیں.