صاحبِ نہج البلاغہ

21

شیرِ خدا سیّدنا علی المرتضیٰؓ تاریخِ عالم میں ایسی نابغہ روزگار ہستی ہیں جن کی مثال لانے کی جستجو بھی محال ہے۔ بالعموم شجاعت اور حکمت و بلاغت ایک شخصیت میں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے۔ تلوار کے دھنی حکمت و دانائی کی مثال نہیں بنتے اور صاحبانِ علم و حکمت میدانِ کارزار سے دور کہیں عافیت نشیں ہوتے ہیں، لیکن سیدنا علیؓ واحد ہستی ہیں جو شجاعت میں صاحبِ ذوالفقار ہیں اور باب علم و حکمت میں بزبانِ رسولِ صادقؐ باب العلم ہیں۔ آپؓ کے خطباتِ علم و عرفان نہج البلاغت کہلائے۔ وارثِ جوامع الکلم کے کلمات ِ قصار دانائی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

حکمت و دانائی اور زہد و تقویٰ بھی ایک ساتھ کم کم دیکھے گئے ہیں۔ کسی شخصیت میں حکمت اور دانائی کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے تو کسی میں زہد، تقویٰ اور تزکیہ وجہِ تعارف بنتا ہے۔ یہاں تقویٰ کا یہ عالم کہ آپؓ امام المتقین ہیں۔ تزکیہِ نفس کا یہ چرچا کہ دشمنِ جان کے سینے پر بیٹھ کر اسے مکمل طور پر زیر کر لینے کے بعد اسے صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ اس نے چہرہ مبارک پر گستاخی کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔ مبادا جہاد فی سبیل اللہ میں نفس کی آمیزش دَر آئے۔ آپؓ اپنے نفس سے اِس حد تک بری تھے کہ اَز روئے قرآن آپؓ ہی وہ عالی جناب ہیں جس نے اللہ کی رضا کے عوض اپنے نفس کا سودا کر لیا تھا۔ دوسری طرف حکمت و دانائی کا یہ عالم کہ اپنوں سے زیادہ اقوامِ غیر آپؓ کے ان خطوط کے متن سے مستفید ہو رہی ہیں جو آپؓ نے مالک اشترؓ کو اصولِ جہاں بانی کی بابت ارسال فرمائے تھے۔ رسول ِ کریمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع احترام آدمیت کا چارٹر ہے اور سیدنا علی المرتضیؓ کا مالک اشترؓ کے نام خط حاکم اور رعایا کے درمیان عمرانی اصول و ضوابط کا ایک مہذب منشور ہے۔ وہ خطبہ اور یہ خط اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کا حصہ بن جائے تو دنیائے عالم امن، سکون اور آشتی کا گہوارہ بن جائے۔

آپؓ امامت و ولایت کا مبداء و منبع ہیں۔ علیؓ دعائے خلیل کی تاثیر امام بھی ہیں، ولی اللہ بھی اور خلیفہ اللہ بھی! بخاری شریف کی ایک صحیح حدیث کے مطابق حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ اسی وجہ سے آپؓ کو وجہہ اللہ الکریم کہا جاتا ہے۔ ید اللہ اور وجہہ اللہ آپؓ ہی کے خطابات ہیں۔

قرآن کریم میں آپؓ کی شان میں تین سو سے زائد آیات نازل ہوئیں۔ سلطاناً النّصیرا …… دَر قرآن آپؓ ہی کی شان ہے۔ اقطار السمٰوات والارض سے نکلنے کے لیے، مجبوریوں کے حصار سے نکلنے کے لیے، سورۃ رحمان میں جس ذاتِ

سلطان کا دامن تھامنے کا کلیہ دیا گیا ہے، وہ آپؓ ہی کا ذاتِ والا صفات ہے۔
یہ اُمّت اس حوالے سے کم نصیب نکلی کہ من حیث المجموع علیؓ ایسی ہمہ جہت ہستی سے کما حقہ تمسک نہ کر سکی، باوجودیکہ اس بحرِ علم میں زمانوں کو سیراب کرنے کی صلاحیت تھی۔ صاحبِ مسندِ سلونی کے بے پایاں علم کا قلزم ٹھاٹھیں مار رہا تھا …… آپؓ فرما رہے تھے کہ مجھ سے پو چھ لو، مجھ سے پوچھ لو، قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو، میں آسمان کے راستے زمین سے بہتر جانتا ہوں …… روایات و خرافات میں کھو جانے والی قوم آپؓ سے اپنی پگڑیوں کے بل پوچھتی رہ گئی، لوگ یہی پوچھتے رہے کہ کون سے جانور بچے دیتے ہیں اور کون سے انڈے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی اپنی سیاسی، علاقائی اور مسلکی تقسیم کے سبب علیؓ ایسی نعمتِ خداوندی کی ناقدری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ علم و حکمت علیؓ سے غفلت کا ِ نتیجہ ہے کہ ہم زبوں حالی سے دامن نہیں چھڑا سکے۔

مقاصدِ بعثتِ رسولؐ قرآن میں یوں درج ہیں: آیات کی تلاوت، الکتاب کا علم، حکمت اور تزکیہ۔ سیّدنا علی المرتضیٰؓ کی شخصیت میں یہ چاروں صفات علم، حکمت، تزکیہ اور تلاوتِ آیات بدرجہ کمال موجود ہیں۔ آپؓ کا علم، علم نبوت سے متصل ہے۔ آپؓ کی حکمت، حکمتِ الٰہیہ کی آئینہ دار ہے، آپؓ کے تزکیہِ نفس کا زمانہ گواہ ہے۔ ظاہری اور باطنی کائنات میں نشانیوں کی تلاوت کی گونج ”نہج البلاغہ“ کے اوراق سے مسلسل بلند ہو رہی ہے۔

یہ بھی ہماری کم نصیبی کہ نہج البلاغہ کے متعلق بھی ہم تشکیک کا شکار رہے، حالانکہ اس کی تحریر بجائے خود ایک عالمِ تحیر ہے ۔۔۔۔۔۔ اور یہ تحیر عالمِ معرفت ہے۔ کلام الامام امام الکلام ۔۔۔۔۔۔ کے مصداق آپؓ کے خطبات، خطوط اور اقوالِ حکمت کا ایک ایک جملہ اپنی ترکیب و ہیئت میں الہام کا تاثر دے رہا ہے۔ توحید کے باب میں ایسا کلامِ معرفت ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، انسانی شعور ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ ذوقِ معرفت سے ذرہ بھر تمسک رکھنے والا شعور ذرا سا بھی متشکک نہیں ہوتا کہ یہ کلام، علیؓ کے کلام کے سوا کسی اور کا ہو سکتا ہے۔ علیؓ کا نام بھی اللہ کے ناموں میں سے ہے اور علیؓ کا کلام بھی اللہ کے کلاموں میں سے ہے۔ معروف محدث امام نسائیؒ نے تیسری صدی ہجری میں ایک کتاب مرتب کی، جس کا نام ”خصائصِ علیؓ“ رکھا، اس کتاب میں سنن نسائی کے مولف نے ایک ہزار مستند احادیث فضلیت ِ علیؓ کے باب میں جمع کی ہیں۔ افسوس یہ کتاب آسانی سے میسر نہیں آتی۔ لوگوں نے مسلکی اور گروہی تعصب میں بعض کتب کو تلف کیا اور بعض تک رسائی دشوار بنا دی۔

رسولِ کریمؐ نے فرمایا ”میں علم کا شہر ہوں، اور علیؓ اس کا دروازہ ہے“۔ آپؐ نے فرمایا ”اے علیؓ! میرے ساتھ تمہاری مثال ایسے ہے جیسے موسیٰؑ کے ساتھ ہارونؑ، اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں“۔ توصیفِ علیؓ کے باب میں رسولِ کریمؐ نے کبھی آپؓ کو حضرت ہارونؑ کی مثل قرار دیا اور کبھی حضرت عیسیٰؑ کی مثل! حضرت عیسیٰ کوکلمۃ اللہ بھی کہا گیا ہے۔ کلام الٰہی میں ہے کہ تم اللہ کے کلمات شمار نہیں کر سکتے، خواہ اس کے لیے روئے زمین کے تمام درخت قلم ہو جائیں اور تمام قلزم روشنائی بن جائیں۔ مناقب علیؓ تحریر کرنے والے، علیؓ کی شان میں منقبت لکھنے والے اپنا تجربہ بیان کر تے ہیں کہ علیؓ کے مناقب قلم بند کرتے ہوئے کبھی سوچنا نہیں پڑتا، کبھی لفظ ڈھونڈنے نہیں پڑتے، علیؓ کے مناقب اس قدر زیادہ ہیں کہ الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، صفحات کم پڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لکھنے والوں کی مہلت ِ عمر بھی کم پڑ جاتی ہے۔ ذکرِ علیؓ دل کو شاد کرتا ہے۔ نامِ علیؓ روح پرور ہے، روح کو نشاط دیتا ہے۔ علیؓ کی یاد عرفان کے دَر وا کرتی ہے۔

استادِ جبریل مکرم کے کرم سے جسے جبریل کا ایک بال بھی چھو جاتا ہے اس کا اقبال بلند کر دیا جاتا ہے۔ آپ کے واصفؒ کو واصف علی واصفؒ بنا دیا جاتا ہے۔ آپؓ ہی کا فقر فقرِ حیدری ہے، یہی وہ فقر ہے، جس پر سرکارِ دو عالمؐ کو فخر ہے۔ آپؓ ایک طرف صاحبِ سیف ذوالفقار ہیں اور دوسری طرف پیکرِ صبر و تسلیم و رضا ہے۔ آپؓ بے ذر کو بو زرؓ کر دیتے ہیں۔ آپؓ اصحابِ صفہ کے اتالیق ہیں۔ تصوف اصحابِ صفہ کا ورثہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اور آپؓ اس ورثے کو تقسیم کرنے والے ہیں۔

صاحبان ولایت کہتے ہیں کہ ولی بس ایک ہے اور وہ علیؓ ہے ۔۔۔۔۔ علی ہی ولی اللہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ باقی سب ولی علیؓ کے ولی ہیں۔ ولایت کے باب میں آپؓ مختار عام ہیں ۔۔۔۔۔۔ آپؓ قاسمِ ولایت ہیں، اپنی ولایت میں سے جسے چاہے مختارِ خاص کریں۔

خطبہ خم غدیر آپؓ کی عظمت و وراثت پر گواہ ہے۔ من کنت مولیٰ فھٰذا علی مولیٰ ۔۔۔۔۔۔ رسولِ کریمؐ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر خم غدیر کے مقام پر ایک لاکھ چوبیس ہزار جلیل القدر اصحاب کے سامنے سیدنا علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند فرمایا اور فرمایا: ”جس کا میں مولاہوں، اس کا علیؓ مولا ہے، اس کا جسم میرا جسم ہے، اس کی روح میری روح، اس کا نفس میرا نفس ہے، اس کا خون میرا خون ہے۔“

کوفہ کی مسجد میں ضربت لگانے والوں نے علیؓ کا خون نہیں کیا بلکہ نبیؐ کا خون کیا ہے۔ کعبہ میں پیدا ہونے والا اور مسجد میں سجدے کی حالت میں شہید ہونے والا ہی ربِ علیٰ کی شہادت دے سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہی ببانگ دہل یہ اعلان کر سکتا ہے: ”فضت بربّ کعبہ“ ۔۔۔۔۔۔ رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ بلاشبہ آپؓ اپنے رب اور رسولؐ کے ساتھ عہد وفا کرنے میں سرخ رُو رہے۔

تبصرے بند ہیں.